کینیڈا کے سکھ سماجی کارکن گرچرن سنگھ بنویت اپنے دس ساتھیوں کے ہمراہ ایک بس کے ذریعے کینیڈا سے پاکستان گرونانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔
گرچرن سنگھ بنویت کا کہنا ہے کہ اس سفر کا مقصد انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خطرے سے آگاہ کرنا اور دنیا کو امن کا پیغام دینا ہے۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے اردو نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے گرچرن سنگھ بیونت نے کہا کہ وہ کئی ماہ سے کینیڈا اور امریکہ میں لوگوں کو امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ ’انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان جو کشیدگی جاری ہے اس کو کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی مائی کے لعل کا خون دھرتی پر گرے چاہے وہ مسلمان، ہندو، سکھ یا کسی مسیحی کا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گرو نانک کا پیغام ہے: ’ہوئے اکتر ملو میرے بھائی، ڈبھیدا دور کرو‘ یعنی او میرے بھائی، مجھ سے ملو، اور مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرو۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے، ہم دنیا میں امن چاہتے ہیں۔ اور دنیا کو یہی بات بتاتے ہوئے ہم ویانا پہنچے ہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستان کے ضلع نارووال کے علاقے کرتار پور میں سکھوں کے روحانی پیشوا اور پہلے گرو بابا نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور یہیں ان کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔
انڈین سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دربار صاحب گردوارے تک رسائی کے لیے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک راہداری تعمیر کی جا رہی ہے جہاں سے انڈین شہری بغیر ویزے کے گرودوارے آ سکیں گے۔
اس کا باقاعدہ افتتاح بابا گرو نانک کے جنم دن کے موقع پر 12 نومبر کو کیا جائے گا۔
74 سالہ گرچرن سنگھ بیونت اور ان کے ساتھیوں نے اسی مناسبت سے کینیڈا سے کرتارپور تک بذریعہ بس اس سفر کا ارادہ کیا اور اب وہ خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے کرتارپور کی جانب رواں دواں ہیں۔
خصوصی طور پر تیار کردہ بس کے سامنے ’جرنی ٹو کرتارپور‘ یعنی کرتارپور کا سفر لکھا ہوا ہے، جب کہ اس سفر کا نقشہ بھی بس کے دونوں جانب بنایا گیا ہے۔
انہوں نے اس لگژری بس کے بارے میں بتایا کہ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصے میں سونے کے لیے جگہ، کچن اور واش رومز ہیں جب کہ دوسری گاڑی پائلٹ کار کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سفر کے لیے امیر خان نامی ایک کاروباری شخصیت نے انہیں یہ گاڑیاں تیار کر کے دی ہیں۔
بحری جہاز، فیری اور بس کا سفر
اپنے سفر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ تین ستمبر کو ’کینیڈا کے علاقے ہیلی فیکس سے ہم نے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور انگلینڈ کی بندرگاہ لیورپول پہنچے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’انگلینڈ سے فیری کے راستے فرانس پہنچے، اور براستہ سڑک بیلجیئم، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ سے آسٹریا پہنچے۔ اب ہم ہنگری، بلغاریہ، سربیا اور پھر ترکی جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے وہ انڈیا بھی جائیں گے اور بمبئی تک بس کا سفر کرتے ہوئے امن کا پیغام دیں گے کہ کسی کا خون نہیں بہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس موقعے پر ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ یہ لڑائی جھگڑے ختم کرنے چاہییں کیونکہ محض ایک بٹن دبانے سے لاکھوں افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں اور یہ دھرتی ختم ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دو دن میں ہم ترکی پہنچیں گے، اس کے بعد ایران پھر بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوں گے۔‘
’ہمیں امید ہے کہ ہم 30 اکتوبر سے پہلے پاکستان پہنچ جائیں گے۔‘
ویزہ کے مسائل
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرتارپور راہداری کھلنے سے انڈیا سے آنے والے یاتری بغیر ویزہ دربار صاحب کرتارپور پہنچ کر اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں گے لیکن بیرون ملک سے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کو اب بھی ویزہ درکار ہو گا۔
گرچرن سنگھ بیونت کہتے ہیں کہ پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ کیونکہ کینیڈا، امریکہ، یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بسے سکھ افراد کو انڈین شہری سمجھا جاتا ہے جب کہ ان کے پاس نہ انڈین پاسپورٹ ہے نہ انڈین شہریت۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت پاکستان میں سیاحت کے فروخت کی بات کرتی ہے لیکن ویزے کا حصول اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جس میں نرمی کی ضرورت ہے۔
گرچرن سنگھ بیونت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت مذہبی سیاحت کے فروغ سے بہتر ہو سکتی ہے، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سکھ یاتری یہاں آنا چاہتے ہیں، وہ یہاں کی تعمیر و ترقی اور سماجی کاموں میں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ 27 برسوں سے ہر سال پاکستان آ رہے ہیں اور تقریبا چھ لاکھ ڈالر پاکستان میں سماجی و فلاحی کاموں پر خرچ کر چکے ہیں لیکن اگست میں جب انہوں نے کینیڈا میں پاکستانی قونصل خانے سے ملٹی پل انٹری ویزے کی کوشش کی تو انہیں مایوسی کا سامنا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی عرصہ دراز سے ننکانہ صاحب کے قریب ٹرسٹ ہسپتال کی مالی اعانت کر رہے ہیں اور یہاں ہر سال تقریباً دو سے تین ہزار آنکھوں کے مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اور انہیں مفت عینکیں اور علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
گرچرن سنگھ بیونت کے مطابق ’پاکستان ہمارے لیے مکہ اور مدینہ جیسا ہے، اگر ایک مسلمان کو وہاں جانے کی اجازت نہ دی جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟ ویزے کے مشکلات کی وجہ سے ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہوتی ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں