ترکی نے جمعرات کو شام میں کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)
انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں ترکی کو شام میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعہ کو کہا ہے کہ ترکی کی فورسز اور اس کے اتحادی شامی باغیوں نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں کارروائی کے دوران ’جنگی جرائم‘ کیے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رواں ماہ 9 اکتوبر کو شروع کیے جانے والے آپریشن میں انقرہ کے فوجیوں کو تشدد کی سنگین کارروائیوں اور جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
انقرہ کی جانب سے فی الحال اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی نے جمعرات کو کارروائیاں معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
انقرہ نے شمال مشرقی شام کی سرحد کے قریبی علاقوں سے کردوں کو ہٹانے کے لیے اس آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کے مطابق اس کارروائی میں 72 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔
ایمنسٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ترکی کی فوج اور شامی باغیوں نے عام شہریوں کی زندگیوں کی توہین کرنے کے شرمناک عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
’طبی امداد فراہم کرنے والے اور ریسکیو اہلکاروں، صحافیوں، بے گھر افراد سمیت 17 گواہان اور ویڈیو فوٹیجز کی بنیاد پر یہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔‘
ایمنسٹی کے مطابق جمع کی گئی معلومات سے ترک فوج اور اس کے اتحادی شامی باغیوں کے رہائشی علاقوں میں اندھادھند حملوں جن میں ایک گھر، سکول، بیکری پر حملے شامل ہیں، کے شواہد ملتے ہیں۔
تنظیم کے سیکرٹری جنرل کومی نیدو کا کہنا ہے کہ ’ترکی کی فوج اور اس کے اتحادیوں نے عام شہریوں کی زندگیوں کو سنگدلی سے یکسر نظرانداز کیا ہے۔‘
ریڈ کریسنٹ کے ایک کرد اہلکار کے بیان کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے 12 اکتوبر کو ترکی کے فضائی حملے کے نتیجے میں ایک سکول کے قریب گرے ملبے سے کئی لاشیں اٹھائی ہیں۔
’میں یہ نہیں بتاسکتا کہ یہ (لاشیں) لڑکوں کی تھیں یا لڑکیوں کی، کیونکہ یہ لاشیں مکمل طور پر جلی ہوئی تھیں۔ وہ بالکل کوئلے کی طرح لگ رہی تھیں۔‘