کمیٹی فائز عیسٰی کے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کا حوالہ دے کر قانون کی پاسداری کا کہتی ہے، فوٹو: اے ایف پی
فضل الرحمان ایک سیاسی مولانا ہیں اور وہ اسلام آباد آ کر صرف سیاست ہی کریں گے۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا نورالحق قادری کے اسی ایک جملے سے ہی حکومت مذاکراتی کمیٹی کے مینڈیٹ اور عمل داری کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دراصل اسے اگر ’مذاکراتی کمیٹی‘ کے بجائے ’تصادم بچاؤ ‘ کمیٹی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یا پھر ’ذمہ داری بچاؤ کمیٹی ‘ کہ کل کو اگر صورت حال تصادم کی طرف گئی تو حکومت یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے تو اپنے تئیں بھرپور کوشش کی تھی۔ اس لیے یہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مصالحت، سیاسی حل اور درمیان کا راستہ نکالنے کے لیے شاید کوشش ضرور کر رہے ہیں لیکن ان کا انتظامی اور سٹریٹجک فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جمعرات سے سپیکر ہاؤس اسلام آباد میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے دو الگ الگ نشستوں میں میڈیا اینکرز سے ملاقات کے دوران ہمیں رہبر کمیٹی سے کیے گیے رابطوں کے حوالے سے بریف کیا۔
مولانا نے بھی اس مذاکراتی کمیٹی سے خود ملنے کے بجائے اپنے نمائندوں کو ہی بھیجا اور ان کو بھی ضمنی معاملات تک محدود رکھا جبکہ اصل قضیہ یعنی وزیراعظم کے استعفے کا معاملہ اس کمیٹی کے سامنے رکھنے کا تکلف ہی نہیں کیا گیا، اس لیے مذاکراتی کمیٹی بار بار یہی کہتی رہی کہ ہمارے ساتھ تو استعفے کی بات تک نہیں کی گئی، اس لیے کہ وہ معاملہ درپردہ ہی پیش اور درپیش ہو رہا ہے۔
کمیٹی کی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسلام آباد کے جی نائن سیکٹر میں بدھ کی شام سے ہی موبائل سگنلز بند ہونے کی بات کی گئی تو کمیٹی ممبران لاعلم تھے کہ ایسا کون اور کیوں کر رہا ہے جبکہ وہیں بیٹھے ایک کمیٹی ممبر نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعی کل شام سے جی نائن میں سگنلز بند ہیں۔
البتہ تمام ممبران کی باڈی لینگویج نسبتاً پراعتماد تھی شاید اس لیے کہ لاہور میں مولانا کے اتحادیوں کی ان سے لاتعلقی اور مسلم لیگ ن کی قلابازیوں نے اعتماد دیا ہے کہ معاملات کسی حد تک نہیں بلکہ بہت حد تک مینیج ہو چکے ہیں۔
کئی مرتبہ مختلف طریقوں سے بار بار کریدے جانے کے باوجود ایسا ہی لگا کہ کمیٹی کا اکتفا اسی بات پر ہے کہ مولانا صاحب اسلام آباد آ کر زیادہ ضد نہیں کریں گے لیکن اگر مولانا نے اسلام آباد آ کر اپنے کارکنوں سے آگے جانے یا نہ جانے کے بارے میں رائے مانگی اور کارکنوں نے آگے جانے پر اصرار کیا تو حکومت کیا کرے گی؟ تو ہمیں بتایا گیا کہ ’اس صورت میں فیصلے ہوچکے ہیں، مظاہرین کو کسی صورت بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔ پرویز خٹک نے یاد دلایا کہ وہ 2014 میں اس وقت کی انتظامیہ اور وزیر داخلہ چودھری نثار سے خود اجازت لے کر ڈی چوک کی طرف بڑھے تھے۔
مولانا نے اسلام آباد آ کر مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے کوئی سخت مطالبہ کر دیا تو؟ جواب ملا کہ ’پیپلز پارٹی سے خاص طور پر شکوہ ہو گا کیونکہ رہبر کمیٹی میں پیپلز پارٹی شامل ہے‘
اسے المیہ کہیں یا خوشگوار حیرت کہ مذاکراتی کمیٹی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ جسٹس فائز عیسٰی کے فیض آباد دھرنے کے فیصلے کا حوالہ دے کر قانون کی پاسداری کا کہتی ہے، یہ وہی فیصلہ ہے جسے پاکستان تحریک انصاف خود عدالت میں چیلنج کر چکی ہے لیکن آج اسی فیصلے کے پیچھے سیاسی پناہ لے رہی ہے۔
یہ سارا معاملہ تو انتخابات میں دھاندلی کا ہے تو کیوں یہ نوبت آنے دی؟ دھاندلی کمیٹی غیر فعال کیوں؟ ٹی او آرز کیوں تشکیل نہیں دیے گیے۔ ظاہر ہے پرویز خٹک سے ہی یہ سوال بنتا تھا اور ہوا بھی، جواباً انہوں نے تمام تر ذمہ داری اپوزیشن پر ڈال دی کہ وہ اس پورے معاملے میں غیرسنجیدہ ہے۔
ملاقات سے واپسی پر کنٹینرز سے بچتے بچاتے شدید ٹریفک میں پھنسی ہوئی یہ سطور تحریر کر رہی ہوں۔ غیر یقینی صورت حال اور اضطراب سڑکوں پر ٹریفک میں پھنسے اور راستہ ڈھونڈتے عوام کے چہروں سے عیاں ہے۔ حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام آباد دھرنا دینے والوں کے عزائم پراسرار اور ارادے خطرناک ہوتے ہیں۔ مولانا کا ’مارچ ‘ جس میں بقول ان کے دھرنا اور جلسہ دونوں شامل ہیں، اس کا نقطہ عروج بہر حال آ چکا ہے۔