دھرنے کے شرکا مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد میں حزب اختلاف کے احتجاجی جلوس کی مرکزی قیادت تو وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دے کر گھروں کو چلی گئی لیکن جلسے کے شرکا نے اب گراؤنڈ کو خیمہ بستی میں تبدیل کردیا ہے۔
سنیچر کو گذشتہ روز کی نسبت گراؤنڈ میں خیموں کی تعداد دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اب لمبے پڑاؤ کی تیاری کی جا رہی ہے اور وہ بھی صرف جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنوں کی طرف سے کیونکہ گراؤنڈ میں احتجاج کے دوسرے روز ہی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے کارکنان کی تعداد انتہائی کم ہوتی جارہی ہے۔
پہلے روز لگائے گئے مختلف جماعتوں کے بینرز اور جھنڈے بھی اب غائب ہو گئے ہیں۔ کشمیر ہائی وے پر اب جے یو آئی ف کے کارکنان ہی موجود ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ دھرنا مشترکہ اپوزیشن کا نہیں بلکہ اب صرف جے یو آئی ف کا ہی دھرنا رہ گیا ہے۔
صبح 9:30 بجے کا وقت تھا اور خیال تھا کہ ابھی ناشتے کا وقت ہوگا لیکن کراچی کمپنی سے جلسہ گاہ کی طرف جاتے ہوئے کچھ کے ہاتھوں میں تو دوپہر کے کھانے کا سامان تھا۔ کوئی سبزی اٹھائے جا رہا تھا تو کوئی ہاتھ میں فروٹ کے تھیلے لیے دھرنے کے مقام کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ٹریفک پولیس اہلکار سڑک کنارے کھڑے ریڑھی والوں کو ہانک کر ٹریفک رواں دواں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کراچی کمپنی کے سگنل پر دھرنا انتظامیہ کی جانب سے لگائے واک تھرو گیٹ پر پہنچے تو انصار الاسلام کے اہلکار آنے جانے والوں کی فرضی سی تلاشی بھی لے رہے تھے۔
کشمیر ہائی وے پر پہنچے تو جلسہ گاہ خیمہ بستی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ دھرنے میں شریک جوان اور بزرگ سستا رہے تھے تو نوجوان دوپہرکا کھانا تیار کرنے میں مشغول تھے۔ آگے بڑھا تو کچھ کارکن چہرے پر تیکھے تاثرات لیے اخبار کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔
پوچھنے پر پتہ چلا کہ عین الاسلام اور نور عالم جمیعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکن ہیں اور بنوں سے مارچ میں شرکت کرنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ اخبار میں دلچسپی لینے کی وجہ دریافت کی تو نورعالم بولے اخبار ایک نشہ ہے چار سال سے عادت ہے اخبار مکمل پڑھتا ہوں۔ میں نے کہا آج کا اخبار دیکھ کر خوش نہیں لگ رہے، انہوں نے اخبار کی سرخی کی طرف (جس میں افواج پاکستان کے ترجمان کا بیان تھا) اشارہ کرتے ہوئے بولا ’یہ بات پسند نہیں آئی لیکن اللہ مالک ہے۔‘
بنوں سے آئے نور عالم بولے کہ اکرم درانی ہمارے گاؤں کا ہے اور اس کے مقابلے میں عمران خان الیکشن میں کامیاب ہوا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ باہر کا ایک آدمی آکر مقامی شخص سے الیکشن جیت جائے؟ اس کے بعد اپنے مطالبوں کی ایک طویل فہرست بھی گنوائی۔ خیر ان سے اجازت مانگی اور آگے بڑھ گئے۔
ایک خیمے کے باہر کرک سے آئے نوید اپنے ساتھیوں کے لیے دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف تھے۔ نوید سے پوچھا صبح دس بج رہے ہیں اور آپ دوپہر کا کھانا بنا رہے ہیں تو جواب ملا ’بھائی! ہمارا تو آدھا دن گزر چکا ہے ہم اس سے بھی پہلے کھانا بنا لیتے ہیں‘ ۔
ان سے پوچھا کہ اس طرح رہنے میں مشکلات نہیں ہوں گی؟ تو کہنے لگے کہ ’ہم تو مدرسے میں بھی ایسے ہی کھانا بناتے ہیں یہاں پر بھی بنائیں گے ہماری زندگی یہاں بھی وہی اور وہاں بھی۔‘
دھرنے کے شرکا مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان ٹولیوں نے اپنا ایک امیر بھی مقرر کر رکھا ہے جو بجٹ اور دیگر انتظامی امور چلاتا ہے۔ کرک سے آئے اس ٹولی کے امیر فہیم الاسلام سے پوچھا کہ کارکن کب تک اسلام آباد میں رہنے کا خرچ برداشت کر پائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے ہر ضلع میں آزادی مارچ چندہ مہم شروع کی تھی جس سے کروڑوں روپے کا چندہ اکٹھا کیا ہے ’صرف ضلع کرک سے دو کروڑ کا چندہ اکٹھا ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہا کہ جو استطاعت نہیں رکھتے ہم ان لوگوں کو ساتھ شامل کر لیتے ہیں اگر پھر بھی پیسے ختم ہوگئے تو گاؤں سے مخیر حضرات ہماری جماعت کو چندہ دیتے رہتے ہیں ہم وہاں سے منگوا لیں گے۔
سوال کیا کہ استعفی نہ ملا تو کیا کریں گے؟َ جواب ملا کہ ’مولانا جب کہیں واپس چلے جائیں گے، نہیں تو بیٹھے رہیں گے۔‘
’دھرنے میں شرکت ہوجائے اور کاروبار بھی چلتا رہے‘
کشمیر ہائی وے پر آگے بڑھے تو لوگوں کا غیر معمولی رش نظر آیا۔ پاس پہنچنے پر دیکھا کہ ہائی وے کی گرین بلٹ پر ایک شخص اخروٹ اور خشک میوہ جات کی ڈھیری لگائے ہوئے ہے اور دھرنے کے شرکا خریداری میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔
یہ اپر دیر سے آئے سعید غنی تھے جو خشک میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے کارکن ہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ’ہم صرف 20 روپے کا منافع رکھ کر اپنے ساتھیوں کو یہ فروخت کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دھرنے میں بھی شریک رہیں اور کاروبار بھی چلتا رہے۔‘
ساتھ میں دھرنے کے شرکا ان سے یہ بھی شکوہ کر رہے تھے کہ ’بھائی تمہارے اخروٹ ٹھیک نہیں کالے ہیں۔‘ اپنے گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لیے سعید دانتوں سے اخروٹ توڑ کر دکھاتےاور کہتے ’یہ اوپر سے کالے ہیں اندر سے نہیں۔‘
اتنے میں کشمیر ہائی وے پر انصار الاسلام کے 20 سے 30 اہلکار پریڈ کرتےہوئے ’اللہ ہو اللہ ہو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے گزرے۔ جہاں جہاں سے وہ گزرتے ان کو دیکھ کر شرکا بھی باآواز بلند نعروں کا جواب دیتے۔
پوچھا بھائی یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو ساتھ کھڑے نوجوان نے بتایا کہ یہ انصار الاسلام کے اہلکار ہیں جو کہ اس وقت مشق کر رہے ہیں اور یہی ہمارا فخر ہیں۔
دھرنے سے اب باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ ایک نوجوان نے پوچھا ’سائیں آپ میڈیا والے ہیں؟‘ ان کے سوال کے انداز سے ہی فورا اندازہ لگا لیا کہ یہ سندھ دھرتی سے آئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہاں سے آئے ہو تو کہنے لگے کہ’سندھ کے ضلع گھوٹکی سے، سائیں ہمارا نام عبدالحمید ہے میرا بھی انٹرویو لو‘۔
گھوٹکی کا نام سن کر فورا شاہ محمود قریشی کی طرف خیال چلا گیا۔ میں نے کہا کہ شاہ محمود کی جماعت کی حکومت سے خوش نہیں ہو؟ تو فورا سے بولے ’مرشد تو اچھے انسان ہیں، بس ان سے پی ٹی آئی میں آکر غلطی ہوگئی ہے۔‘ ’نیازی اچھا آدمی نہیں ہے سائیں۔‘ میں نے کہا اگر شاہ محمود وزیراعظم بن جائیں تو کیسا رہے گا بولے ’مرشد تو بھلے آدمی ہیں لیکن پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم نہ بنیں۔‘