اسلام آباد کی ویران سڑکوں پر رکھے کنٹینروں کی رکاوٹوں کی سائیڈ سے بنائے گئے راستوں سے گزرتے ہوئے ایچ نائن سیکٹر میں جلوس کے پنڈال تک پہنچنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
بس آپ سڑک کے کنارے گاڑی پارک کریں اور آرام سے جلوس کے شرکا میں شامل ہو جائیں، اس کے لیے اگر آپ کا دل ہو تو سکیورٹی کے لیے رکھے واک تھرو گیٹ سے گزریں یا ان کے پاس سے گزر جائیں۔
اندر داخل ہوتے ہی سائیڈ پر رکھے کنٹیر کے کھلے دروازے سے جھانکا تو قطار میں بستر رکھے تھے اور ساتھ گیس سلینڈرز بھی تھے اور ان کے ساتھ بیٹھے کنٹینرز کے واحد مکین کھانے میں مصروف تھے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ان سے سوال پوچھ ہی لیا کہ کنٹینر تو سکیورٹی کے لیے تھے لیکن یہ تو آرام گاہ بن گئے۔
تو مسکراہٹ میں جواب ملا کہ ’میں خود سکیورٹی پر تعینات ہوں صرف کھانے کے لیے آیا ہوں۔۔۔۔۔‘
تو بستر کس کے ہیں اور یہاں تک کیسے پہنچے تو پھر ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا ’بس وہ آئے دورزاہ کھولا اور اندر بیٹھ گئے اور اب پنڈال میں گئے ہیں تو کھانا کھانے یہاں آ گیا۔‘
چلیں آپ کھانا کھائیں۔۔۔آگے بڑھے تو کشمیر ہائی وے تھی جو کشمیر بھی جاتی ہے اور اسی شاہراہ پر یہاں سے چند منٹ کے سفر پر وزیراعظم آفس بھی پہنچ سکتے ہیں۔
یہاں مسلم لیگ نون کے کارکن جمع تھے اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن بھی دکھائی دیے اور ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر مولانا فضل الرحمان کا کنٹینر تھا۔ کنٹینر کے سامنے ان کی جماعت کے کارکن کھڑے وہاں سے ہونے والی تقاریر اور اعلانات سن رہے تھے جس میں ’آزادی دلانے‘ کے وعدوں اور عزم کا اظہار بار بار کیا جا رہا تھا۔
میں نے قریب ہی کھڑے کارکن سے پوچھا کس چیز کی آزادی کی بات ہو رہی۔۔۔ کشمیر کی آزادی۔۔۔ ؟ تو جواب آیا ’نہیں مولانا اس حکومت سے آزادی کی بات کر رہے ہیں۔۔ ‘اچھا۔۔۔ تو اس کے لیے کب تک اسلام آباد رہیں گے۔۔۔؟
تو جواب آیا ’جب تک قائد کہیں گے۔۔۔ ‘ تو اس کے لیے تیاریاں پوری ہیں۔۔۔۔؟ جواب ملا۔۔ ’ہاں رکے رہیں گے جب تک کہا گیا۔‘
اس جواب کے بعد اس کچے میدان کا رخ کیا جہاں پر پھیلے خیموں اور کھلے میدان میں شرکا کی بڑی تعداد بیھٹی تھی اور ان کے چہروں پر تھکاوٹ اور کئی دنوں کے سفر کے آثار نمایاں تھے۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان میں سے کس سے بات کی جائے کہ اسی دوران جمعیت علما اسلام کی ذیلی تنظیم انصار اسلام کا ایک کارکن جمیل سامنے آ گیا۔ اس سے پہلے وہ سوال کرتے میں نے فوراً پوچھا کہ آپ پر تو حکومت نے پابندی لگائی ہے تو ہاتھ میں تھامے ڈنڈے کو لہراتے ہوئے کہا کہ ’یہ حکومت ہے۔ ہمیں کسی پابندی کا معلوم نہیں۔۔اگر ہے بھی تو کیا۔۔‘
مزید پڑھیں
-
’اگر مولانا نے دس سال بیٹھنے کا کہا تو بیٹھیں گے‘Node ID: 441066
-
’سب بیروزگار اکھٹے ہو گئے ہیں لیکن این آر او نہیں ملے گا‘Node ID: 441071