جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم کوئی کمیشن نہیں مانتے، کمیشن بنانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہیں اور نئے الیکشنز چاہتے ہیں۔‘
منگل کی رات آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ وہ مطالبات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
مولانا جا رہے ہیں؟Node ID: 441586
-
’حکومت اور دھرنے والوں کے مذاکرات میں ڈیڈلاک نہیں‘Node ID: 441611
-
’حکومت دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پر رضامند‘Node ID: 441781
انہوں نے کہا کہ ’لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر دھرنے کی وجہ سے حکومت چلی گئی تو یہ روایت بن جائے گی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ 2014 کے 126 دن کے دھرنے پر یہ اعتراض کیوں نہیں اٹھایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات کو ماننا پڑے گا، ہم نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’انہوں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام کا ڈرامہ مزید نہیں چل سکے گا۔‘
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تنہا ہو گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایران ہمارے مقابلے میں انڈیا کو اہمیت دے رہا ہے اور حکومت نے چین کی سرمایہ کاری کو غارت کر دیا ہے۔‘
انہوں نے آزادی مارچ کے شرکا سے کہا کہ ’پوری قوم آپ کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے، آپ نے سیاسی جمود کو توڑا، روزانہ کچھ لوگ یہاں ڈی چوک جانے کے نعرے لگاتے ہیں لیکن جب تک پالیسی نہیں بنتی اس حوالے سے بات نہ کی جائے۔‘
ڈیڈلاک برقرار
دوسری جانب منگل کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان ’آزادی مارچ‘ کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے اور دونوں کے درمیان ڈیڈ لاک تاحال برقرار ہے۔
اسلام آباد میں جمیعت علمائے اسلام (ف) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے دھرنے کے مستقبل کے حوالے سے منگل کو حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں اہم فیصلوں کی توقع کی جا رہی تھی تاہم اب دونوں کمیٹیوں نے اپنے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے لیے مزید وقت مانگ لیا ہے۔
مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہبر کمیٹی کے کنوینیئر اکرم درانی نے کہا کہ ’ہم نے متفقہ طور پر آج بھی اپنا مؤقف حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھا ہے اور ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے مطالباب اب بھی وہی ہیں۔‘
اس موقعے پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ ’کوشش ہے کہ ان کی بھی عزت رہے اور حکومت کے لیے بھی آسانی ہو۔‘
مزید پڑھیں
-
’مولانا کی اینڈ گیم کیا؟‘ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 441501
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ڈیڈ لاک جلد ختم ہو۔‘
حکومت اور اپوزیشن کے رہنماوں کے درمیان پیر کو بھی ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں اپوزیشن کے مطالبات سے آگاہ کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد پرویز خٹک نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اپوزیشن نے ہمارے سامنے اپنے مطالبات رکھے ہیں جن پر مشاورت کے بعد دوبارہ اپوزیشن رہنماوں کے ساتھ ملاقات کریں گے۔‘
اس کے بعد پیر کو ہی مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب میں کہا تھا کہ ’اجتماع کے اُٹھنے کا فیصلہ اپوزیشن متفقہ طور پر کرے گی۔‘
پیر کو رات گئے حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں چوہدری شجاعت حسین اور اور پرویز الہی نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چوہدری برادران کا کا کہنا تھا کہ ’کوشش ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان معاملات جلد حل ہوں۔‘
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن چودھری پرویز الہیٰ نے کہا تھا کہ ’کسی بھی مسئلے کا حل اچھا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت اور دھرنے والوں کے مذاکرات میں ڈیڈلاک نہیں ہے۔ مایوسی کی کوئی بات نہیں، راستے نکالنے پڑتے ہیں۔‘
اس موقعے پر اکرم درانی کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان کی چوہدری برادران کے ساتھ بھائیوں کی طرح دوستی ہے، دونوں خاندانوں میں یہ تیسری نسل کی دوستی ہے، ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چوہدری برادران آئے، ایسی ملاقاتوں سے ماحول کی بہتری میں مدد ملتی ہے، معاملات کے جلد حل میں سب کی بہتری ہے۔‘
قبل ازیں مارچ کے شرکا سے اپنے خطاب میں مولانا نے کہا تھا کہ ’اپوزیشن جماعتوں نے ان سے کہا ہے کہ اس اجتماع کے اٹھنے کا فیصلہ آپ نہیں بلکہ ہم سب مشترکہ طور پر کریں گے۔‘
مولانا نے یہ بھی کہا تھا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں نے آزادی مارچ کو جس طرح پذیرائی بخشی ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہم اپنے مقصد کے قریب تر جا رہے ہیں۔‘
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے جمعے کو وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’دو دن ہیں آپ کے پاس، آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں۔‘
ان کی طرف سے وزیراعظم کو دی گئی دو دن کی مہلت اتوار کو ختم ہو گئی تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں