حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنماؤں چوہدری شجاعت اور پرویز الہی نے رات گئے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی ہے جس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان معاملات جلد حل ہوں۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن چودھری پرویز الہیٰ نے کہا کہ ’کسی بھی مسئلے کا حل اچھا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت اور دھرنے والوں کے مذاکرات میں ڈیڈلاک نہیں ہے۔ مایوسی کی کوئی بات نہیں، راستے نکالنے پڑتے ہیں۔‘
اس موقع پر اکرم درانی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی چوہدری برادران کے ساتھ بھائیوں کی طرح دوستی ہے، دونوں خاندانوں میں یہ تیسری نسل کی دوستی ہے، ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چوہدری برادران آئے، ایسی ملاقاتوں سے ماحول کی بہتری میں مدد ملتی ہے، معاملات کے جلد حل میں سب کی بہتری ہے۔
اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ان سے کہا ہے کہ اس اجتماع کے اٹھنے کا فیصلہ بھی آپ نہیں بلکہ سب مشترکہ طور پر کریں گے۔
پیر کو ’آزادی مارچ‘ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’آپ مایوس ہو رہے تھے لیکن اپوزشن جماعتوں نے آج آپ کی ہمت بندھائی جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘
مولانا کے مطابق ’تمام سیاسی جماعتوں نے آزادی مارچ کو جس طرح پذیرائی بخشی ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہم اپنے مقصد کے قریب تر جا رہے ہیں۔‘
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 2014 کے دھرنے میں پی ٹی آئی تنہا تھی اور اب حکومت میں بھی تنہا ہے۔ ’ہم پاکستان کو عالمی برادری میں طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تنہا ہو رہا ہے۔
مولانا نے اس موقعے پر حکومتی پالیسوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 70 سالوں میں تمام حکومتوں نے جتنے قرضے لیے اس ایک سال میں موجودہ حکومت میں ان سے زیادہ قرضے لیے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ معیشت کو حکومت نے آئی ایف کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔ اس حکومت کو جتنا وقت دیا جائے گا تو ملک پیچھے جائے گا۔ ملک کے تمام ادارے اور قوم اس حکومت کے حوالے سے اضطراب میں ہیں۔
مولانا کے مطابق آئین ملک کو متحد اور مستحکم کرنے کی بنیاد ہیں۔ آئین پر عمل کیے بغیر ملک کو متحد نہیں رکھا جا سکتا۔ ’ہم آئین سے باہر کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔ غیر منتخب قوتوں کو اقتدار میں آنے پر لوگ مضطرب ہیں، ہم بھی مضطرب ہیں اور ہمارا اضطراب کون دور کرے گا؟‘
ان کے بقول یہ اجتماع پوری قوم کی آواز ہے اور اگر تصادم ہوگا تو قوم سے تصادم ہوگا۔ ’ناجائز حکمران جتنی جلدی جائیں گے، قوم کا اضطراب دور ہوگا۔ ہم بیٹھے ہوئے ہیں، اپوزیشن متحد ہے اور اس اجتماع کا فیصلہ مشترکہ طور پر ہوگا۔‘
انہوں نے کارکنان سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ اپوزیشن کے قائدین کے فیصلے کا انتظار کریں۔
’آزادی مارچ‘ میں خاتون رہنماؤں کی شرکت
جمعیت علمائے اسلام ف کے آزادی مارچ‘ میں خواتین صحافیوں کو کوریج کی اجازت کے بعد پارٹی کی خواتین رہنماؤں کو بھی شرکت کی اجازت مل گئی۔
پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی اور سابق اقلیتی رکن قومی آسیہ ناصر نے پیر کو ’آزادی مارچ‘ میں شرکت کی اور آسیہ ناصر نے شرکا سے خطاب بھی کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے ’آزادی مارچ‘ کا اعلان کیا تو ساتھ ہی واضح کر دیا تھا کہ ان کے دھرنے میں خواتین اور بچے شریک نہیں ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ خواتین گھروں میں رہ کر مارچ کی کامیابی کے لیے دعا کریں گی۔
رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’آزادی مارچ اور دھرنے میں خواتین کو شریک نہ کرنے کا مقصد انہیں مشقت سے بچانا ہے۔‘
مارچ کے آغاز پر خواتین صحافیوں کو کوریج سے بھی روکا گیا تھا۔ دھرنے کے پہلے روز بھی کوریج کے لیے جانے والی خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم تنقید کے بعد پارٹی نے خواتین صحافیوں کو کوریج کی اجازت دے دی۔
پیر کو مولانا فضل الرحمان دھرنے میں پہنچے تو ان کے بعد جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والی موجودہ رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی اور سابق اقلیتی رکن آسیہ ناصر بھی سٹیج پر پہنچ گئیں۔
سٹیج سے نہ صرف دونوں خواتین کی موجودگی کا اعلان ہوا بلکہ دونوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے آسیہ ناصر کو خطاب کی دعوت بھی دی گئی۔
مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی آسیہ ناصر نے اردو اور انگریزی زبان میں خطاب کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو جانا چاہیے کہ وہ اقلیتوں اور عورتوں کی مخالف جماعت ہے۔ جمعیت میں انھیں بحیثیت اقلیت برابر کے حقوق حاصل ہیں اور جمعیت جب صوبے میں اقتدار میں تھی تو سب سے زیادہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا۔‘
آسیہ ناصر نے کہا کہ ’جمعیت نے مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی اور اداروں کے استحکام کی جنگ لڑی ہے۔ پورے ملک کی اقلیتیں مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن جماعتوں کے موقف کی حامی ہیں اور ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔‘
انھوں نے انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ’عمران خان اور ان کی حکومت نے عوام کا مینڈیٹ چرایا ہے اس لیے انھیں جانا ہو گا۔‘
مسیحی خاتون رہنما کی تقریر کے دوران جوشیلے کارکن نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے۔
اپوزیشن کی اے پی سی
دوسری جانب پیر کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت ان کی رہائش گاہ پر اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔
کانفرنس میں اپوزیشن کی 9 جماعتوں کے قائدین اور نمائندگان شریک ہوئے۔ اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جس کا اعلان مولانا فضل الرحمان نے رات مارچ کے شرکاء سے خطاب میں کیا۔
اے پی سی میں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی اور اے این پی کے میاں افتخار حسین شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے جبکہ ن لیگ کے وفد کی سربراہی سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی۔
بلاول بھٹو زرداری بھی جنوبی پنجاب کے دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے راجا پرویز اشرف، نیئر بخاری، نوید قمر اور فرحت اللہ بابر نے اے پی سی میں شرکت کی۔
اتوار کو’آزادی مارچ‘ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم پیچھے کی طرف نہیں جائیں گے، آگے کی طرف ہی جائیں گے۔ یہ تو پلان اے ہے۔ اس کے ساتھ پلان بی بھی ہے اور پلان سی بھی۔‘
مزید پڑھیں
-
کہیں مٹر گوشت تو کہیں مکس سبزی
Node ID: 441411
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ان حکمرانوں کو جانا ہو گا اور عوام کو ووٹ کا حق دینا ہو گا۔ ہم یہاں سے جائیں گے تو کسی پیش رفت سے جائیں گے۔‘ انہوں نے پیر کو اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی بلانے کا بھی اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے جمعے کو وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’دو دن ہیں آپ کے پاس، آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں۔‘
ان کی طرف سے وزیراعظم کو دی گئی دو دن کی مہلت اتوار کو ختم ہو گئی تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں