Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دھمکیاں نہ دیں! اپنا لہجہ درست کریں‘

مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسعد محمود نے وزیر دفاع کے بیان پر احتجاج کیا (فوٹو:سوشل میڈیا)
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی مولانا اسعد محمود نے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کا آبائی حلقے سے دوبارہ انتخاب لڑنے کا چیلنج  قبول کر لیا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے موجودہ سیاسی صورتحال پر اظہار خیال کیا۔
پرویز خٹک نے کہا کہ ’میں آج دل سے بولنا چاہتا ہوں، کیا آپ میں سننے کی ہمت ہے؟‘ وزیردفاع کی اس بات پر اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا، مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود احتجاج میں پیش پیش تھے۔
پرویز خٹک نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سن لو بیٹا سن لو، پورا پاکستان سن رہا ہے۔ میں پاکستان کو آپ لوگوں کی شکل دکھانا چاہتا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے مجھے مذاکراتی کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ چیئرمین سنیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر پنجاب اسمبلی کو میں نے کمیٹی میں اپنی سہولت کے لیے شامل کیا۔

حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مسلسل نعرے بازی کی گونج میں ایوان کی کارروائی جاری رہی (فوٹو:ریڈیو پاکستان)

وفاقی وزیر امور کشمیرعلی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر مولانا کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان دھرنا ختم کرو، کیمرے لگا کر الیکشن لڑ لو۔ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں۔‘
جس پر مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسعد محمود نے علی امین گنڈا پور کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’علی امین کا چیلنج قبول کرتا ہوں۔ میں بھی مستعفی ہوتا ہوں، آپ بھی استعفی دو، اب پیچھے نہیں ہٹنا۔ عوام کے پاس جاتے ہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘
اسعد محمود نے پرویز خٹک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے دھمکیاں دیں ہیں۔ یہ مذاکراتی کمیٹی کے چیئرمین کا لب و لہجہ نہیں ہوسکتا۔ ہم معاہدہ کی پاسداری کررہے ہیں۔ ہم سے آئین و قانون کی بات کرنے والو! آئین ہمارے اکابر اور پیپلزپارٹی نے بنایا ہے۔ آپ ان لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے ہیں جنھوں نے آئین کو توڑا۔ ہم مذاکرات کے لیے اب بھی تیار ہیں لیکن لب و لہجہ درست کریں۔‘

اسعد محمود نے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کا آبائی حلقے سے دوبارہ انتخاب لڑنے کا چیلنج  قبول کر لیا (فوٹو:سوشل میڈیا)

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے بھی اجلاس کے دوران حکومت پر کڑی تنقید کی۔ خواجہ آصف نے جب کہا کہ ’کل آپ یعنی حکومت ہم سے جو مطالبہ کر رہی تھی آج ان سے بھی وہی مطالبہ ہو رہا ہے تو اس میں انوکھا کیا ہے؟‘ تو اس دوران حکومتی بینچوں سے آواز آئی کہ ’نئے الیکشن پھر بھی نہیں ہوں گے۔‘
جس پر خواجہ آصف نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ’الیکشن ہوں گے اور ہمارے مطالبے پر ہی ہوں گے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ فارن فنڈنگ پر تلاشی کے خلاف آپ عدالت میں درخواستیں دے رہے ہیں۔‘
اجلاس کے دوران راجہ پرویز شرف نے سپیکر کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا تو سپیکر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’میں وزیر اعظم کے حکم پر کمیٹی میں شامل ہوا۔‘
 
جس پر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’وزیر اعظم کون ہوتے ہیں آپ کو حکم دینے والے؟ آئین کے تحت وزیر اعظم سپیکر کو حکم نہیں دے سکتا۔‘
اس دوران وفاقی وزیر مراد سعید بھی بول اٹھے اور کہا کہ سپیکر کا عہدہ ایوان کے کسٹوڈین کا ہوتا ہے۔ اگر سپیکر ایوان کے کسٹوڈین کی حیثیت سے مذاکرات میں حصہ لیتا ہے تو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی میں ایاز صادق بھی ایسا کردار ادا کرچکے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مسلسل نعرے بازی کی گونج میں ایوان کی کارروائی جاری رہی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: