پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل پورن میں واقع ایک سرکاری پرائمری سکول میں کے جی سے جماعت پنجم تک کے لیے صرف چار کلاس روم ہیں اور دو خیمے، جن میں بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ان خیموں میں موسموں کی شدت غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہے لیکن بچوں کے حوصلے ان موسمی شدتوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ اساتذہ بھی بلند حوصلے کے ساتھ اپنی تنخواہ سے بچوں کو انعامات دے کر اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بچے اپنی محنت سے سب ڈویژن میں پوزیشن لیتے ہیں۔
یہ ایک ایسا سکول ہے جو وسائل سے تو محروم ضرور ہے لیکن کامیابی اور عزم کی ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔ یہ تحصیل پورن میں ’خیموں والا سکولُ کے نام سے مشہور ہے اور مقامی لوگ اگرچہ سکول کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے فکرمند ہیں لیکن بظاہر یہاں زیر تعلیم بچوں کے خواب کسی مضبوط عمارت کے محتاج نہیں۔
مزید پڑھیں
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل پورن میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول برکاراؤ بنگلئی میں چھ اساتذہ تقریباً 300 طالب علموں کو تعلیم دے رہے ہیں۔
سکول سے منسلک ایک استاد گوہر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سکول کا منظر شاید عام لوگوں کو افسردہ کر دے لیکن یہاں کے اساتذہ اور طلبہ اسے ایک جدوجہد کا میدان سمجھ کر قبول کر چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سکول میں گذشتہ کئی برسوں سے پانچویں جماعت کے نتائج 100 فیصد رہے ہیں۔ بچے غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور ہر سال سب ڈویژن میں ہماری اول پوزیشن آتی ہے۔‘
گوہر علی کے مطابق تمام اساتذہ گریجویٹ ہیں اور بچوں کو جدید طریقوں سے پڑھاتے ہیں جس کی بدولت بچے بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
ان تمام تر مسائل کے باوجود یہ سکول تعلیمی میدان میں شانگلہ کے لیے ایک مثال ہے۔ ہر سال یہاں تقریبِ تقسیم انعامات منعقد کی جاتی ہے جس کے اخراجات اس سکول کے اساتذہ برداشت کرتے ہیں تاکہ بچوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
گوہر علی فخر سے بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2023 میں پانچویں جماعت کے تمام 29 طلبہ پاس ہوئے۔ ہمارا ایک طالب علم سب ڈویژن میں 93 فیصد نمبروں کے ساتھ اول آیا۔ جب بھی کوئی بچہ نمایاں کارکردگی دکھاتا ہے تو ہم اپنی جیب سے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ان کے لیے ایوارڈز بناتے ہیں، الوداعی پارٹیاں منعقد کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کا حوصلہ ٹوٹنے نہ پائے۔‘

یہ تقریبات بعض اوقات ان خیموں میں ہی منعقد کی جاتی ہیں۔ گوہر علی اس صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’سکول میں چار کمرے ہیں جب کہ دو خیمے کے جی اور جماعت اول کے بچوں کے لیے مختص ہیں۔ یہ خیمے ہمیں سنہ 2019 میں حکومت کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔ اس سے پہلے بچے کھلے آسمان تلے پڑھتے تھے۔‘
ان کے مطابق گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں ہونے والے سکول لیڈرز کی جانب سے منعقدہ ٹیسٹ میں اس سکول کے طلبہ نے دوسری، تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔
یہ سکول سنہ 2007 میں تعمیر ہوا تھا اور اس وقت صرف دو کمرے بنائے گئے تھے۔ سنہ 2014 میں جب سکول باقاعدہ فعال ہوا، تب بھی یہی دو کمرے دستیاب تھے۔ سکول کے استاد گوہر علی کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2019 میں حکومت نے خیمے دیے جب کہ اس سے پہلے سنہ 2018 میں مزید دو کمرے بنائے گئے تھے۔ اس سے قبل بچے انہی دو کمروں کے عقب میں ایک نالے کے کنارے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔‘
سنہ 2019 کے بعد سنہ 2022 میں اس سکول کو مزید خیمے فراہم کیے گئے جو اب استعمال کے قابل نہیں ہیں، تاہم بچے ان خیموں کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ شانگلہ میں موسمِ سرما کے دوران بارشیں ہونے کی وجہ سے پانی ٹپکتا ہے جب کہ زمین بھیگ جاتی ہے جس کے باعث بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ چار کمروں کے باوجود طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں یہ سہولت ناکافی ہے۔

دوسری جانب محکمہ تعلیم کے حکام بھی اس صورتِ حال سے بے خبر نہیں ہیں لیکن ان کے مطابق مسئلہ وسائل کی کمی اور پرانے مالی معاملات کا ہے۔
سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر شریف خان وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2014 میں پرائمری سکولوں کو 8 لاکھ روپے تک کے فنڈز دیے گئے تھے لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ فنڈز خرچ نہیں ہو سکے۔ اب یہ فنڈز منجمد ہو چکے ہیں اور موجودہ تعمیراتی ریٹ پر ان سے کچھ بھی کرپانا ممکن نہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ’ضلع بھر کے 70 فیصد سکول کمروں کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
طالب علموں کے والدین سکول انتظامیہ اور دفاتر کے چکر کاٹتے ہیں۔ گوہر علی کہتے ہیں کہ ’والدین یہ ادراک رکھتے ہیں کہ یہ ادارہ بہترین ہے لیکن ماحول بہتر ہونا چاہیے۔ ہمارے تحریری مطالبات پر جولائی 2023 میں ایس ڈی او نے جگہ منتخب کرنے کو کہا۔ ہم نے تصاویر بھیج کر جگہ تجویز کی تھی لیکن تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ہم ہر بار تحریری طور پر ڈیمانڈ جمع کراتے ہیں، مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔‘
ضلع شانگلہ کے اکثر سکول کمروں کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ شریف خان یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’پورن سب ڈویژن میں خاص طور پر یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے۔ ہمارے زیادہ تر سکولوں میں چھ کمرے نہیں ہیں، کچھ میں تین اور کچھ میں چار کمرے ہیں۔ یہ سکول نسبتاً بہتر ہے کہ یہاں چار کمرے ہیں اور دو خیمے لگائے گئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر سکول میں چھ کمرے ہوں اور چھ اساتذہ ہوں لیکن حکومت ہماری خواہشات نہیں بلکہ وسائل کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہے۔‘
ان کے مطابق اس وقت ضلع بھر میں نہ ٹینٹ دستیاب ہیں اور نہ ہی کمروں کے لیے بجٹ میسر ہے۔ ہم بار بار ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو رپورٹ دیتے ہیں اور ان کو ان مسائل کے حوالے سے آگاہ کرتے ہیں لیکن سرِدست کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘

تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں تعمیر ہونے والے 30 فیصد سکولوں میں دو منزلہ عمارتیں بنی ہیں جن میں چھ کمرے ہیں۔
مقامی شہری سمجھتے ہیں کہ یہ بچے آج خیموں میں پڑھ رہے ہیں لیکن اگر سہولیات مہیا کر دی جائیں تو کل یہ بچے انہی خیموں سے نکل کر قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔
گوہر علی بتاتے ہیں کہ ’ہماری کوشش ہے کہ بچوں کا مستقبل تاریک نہ ہو۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ خیموں میں بھی تعلیم کی شمع روشن رکھی جا سکتی ہے۔‘