پولیس کو ان کے بیگ سے لڑکی کے بازو اور جسم کے دیگر حصے ملے۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک معروف روسی تاریخ دان نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے اپنی دوست کے ٹکڑے کیے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 63 برس کے اولگ سکولوو نے 24 سالہ اناستاسیا کے ٹکڑے کر کے انہیں ایک بیگ میں ڈالا اور لاش کو دریا برد کرنے کے لیے نکل گئے، لیکن نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے وہ دریا میں گر گئے۔
کسی شہری نے انہیں دریا میں دیکھ کر پولیس کو اطلاع کی اور اس طرح انہیں دریا سے باہر نکال لیا گیا۔
پولیس کو ان کے بیگ سے لڑکی کے بازو اور جسم کے دیگر حصے ملے۔
فرانسیسی شہنشاہ نیپولین بونا پارٹ کے ماہر سمجھے جانے والے پروفیسر کو فرانس نے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
اولگ کے وکیل نے کہا ہے کہ ’انہوں نے اپنے جرم کو تسلیم کر لیا ہے اور وہ اپنے کیے پر نادم ہیں۔‘
پروفیسر نے پولیس کو بتایا کہ ان کا اناستاسیا کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور انہوں نے لڑکی کو قتل کرنے کے بعد کلہاڑے کے ساتھ اس کے ٹکڑے کیے۔
ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ اولگ ہائپو تھرمیا کے مریض ہیں اور شاید انہوں نے ایسا شدید دباؤ میں کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد روس میں کھلبلی مچ گئی ہے۔
پروفیسر نے لڑکی کے ساتھ مل کر نیپولین پر متعدد کتابیں لکھی ہیں اور کئی فلموں میں نیپولین کا کردار بھی ادا کیا ہے۔
دونوں نے فرانسیسی تاریخ میں تعلیم حاصل کی تھی۔
پروفیسر کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک قابل استاد تھے جنہیں فرنچ آتی تھی اور ان کی چال ڈھال بھی نیپولین کی طرح تھی۔
وہ فرانس کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس، اکنامکس اور سیاسیات کے ممبر بھی تھے جس نے ان کی ممبرشپ منسوخ کر دی ہے۔
ادارے نے کہا ہے کہ ’ہمیں پروفیسر کے خوفناک جرم کا علم ہوا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اس طرح کا گھناؤنا جرم کر سکتے ہیں۔‘