’بیوی اگر سجی سنوری رہے، بچوں اور گرم روٹی سمیت تو ہی میاں رہے گا قابو میں، ’جب میاں تھکا ہارا گھر پر آئے تو اس کو سکون چاہیے۔ جب مرد گھر میں واپس آئے تو اس کو اپنے گھر پر بادشاہ جیسا سلوک چاہیے۔ عورت آئے تو فوراً نوکرانی بن جائے۔ میں تو کہتی ہوں کی ایک چپ سو سکھ۔ بیوی کو چاہیے کہ شادی کے بعد بس زبان کو من کے اندر طے کر کے رکھ لے۔ ایسا نہ کیا تو مرد تو جائے گا دوسرے عورت کے پاس۔ اس کی تو فطرت ہے۔‘
یہ کہنا ہے معروف اداکارہ و مزاح نگار فائزہ سلیم کا۔ جنہوں نے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہوئے گذشتہ دنوں ہونے والی بحث میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یہ بحث شروع ہوئی نجی چینل پر چلنے والے ایک ڈرامے کے ڈائیلاگ سے جس میں ایک عورت کو ’دو ٹکے‘ کی اس لیے کہا گیا کیوںکہ وہ ایک غیر مرد سے مراسم بڑھا رہی تھی۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ غیر مرد کو کسی قسم کے القابات سے نہ نوازا گیا جب کہ وہ بھی اس امر میں برابر کے شریک تھے۔
مزید پڑھیں
-
’خواہش ہے ٹام بوائے کا کردار ادا کروں‘Node ID: 438826
-
کیا نیلم منیر اب آئٹم نمبر نہیں کریں گی؟Node ID: 439126
-
’کوئی کیا کہتا اور سوچتا ہے مجھے پرواہ نہیں‘Node ID: 441311
فائزہ کی یہ ویڈیو دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے جس میں انہوں معاشرے کے کچھ تلخ حقائق مذاق مذاق میں کریدے ہیں۔ انہوں نے اس ویڈیو کو نشر کرتے وقت اپنے پرستاروں سے یہ بھی پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی اس قسم کی منطق اور وجوہات سنی ہیں جس پر کافی لوگوں نے مثبت میں جواب دیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فائزہ نے بتایا کہ ’ان کا مقصد یہ تھا کہ اس لائن یا ڈائیلاگ پر بات ہو جو ایک ڈرامے میں شامل تھا۔‘
’حقیقی زندگی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ مرد حضرات کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ نکل جائیں دوسری، تیسری کے ساتھ اور خواتین کو ظاہر ہے وہ کبھی ایسا کرے تو اس کو مار دیا جاتا ہے یا کم سے کم زبانی کہ بھئی وہ ایسی ہے ویسی ہے، اس کردار کی ہے۔ مرد کو کبھی ایسا نہیں سمجھا جاتا۔‘
یہی وجہ ہے کہ فائزہ کہتی ہیں کہ ’عورت کو شادی سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ تمہیں ایسا کرنا ہے اور ویسا کرنا ہے۔ہمیشہ تیار رہنا ہے۔ اس کے لیے بن ٹھن کے رہنا، بچے پیدا کرنا ورنہ تو وہ بھاگ جائے گا۔ شاید دس میں سے کوئی ایک ماں اپنے لڑکے کو یہ بولتی ہو کہ تم ایسا کرنا ورنہ بیوی ناراض ہوجائے گی بھاگنا تو دور کی بات ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہر دفعہ نہیں مگر اکثر ہمارے معاشرے میں یہی ہوتا ہے۔ ’یہ ایک (دو ٹکے کی عورت والی) لائن تھی جس نے مجھے یہ ویڈیو بنانے پر مجبور کر دیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سارے لوگوں نے مجھے اس ویڈیو کے نشر ہونے کے بعد رابطہ کر کے بتایا کہ ان کے ساتھ یا کسی جاننے والی خواتین کے ساتھ ایسا ہوا کہ ان کے خاوند نے انہیں صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ ان کا دل بھر گیا تھا، یا وہ ان کا وزن کم نہیں ہو رہا تھا یا پھر یہ بہانہ بنا دیا کہ ہفتہ میں بیوی صرف چار بار کھانا بناتی ہے پورا ہفتہ نہیں۔‘
فائزہ کا کہنا تھا کہ ’کچھ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’ان کی ویڈیو کا مقصد یہ تھا کہ بیویاں شوہر کی خدمت نہ کریں حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ معاملہ دو طرفہ ہونا چاہیے۔‘
’زیادہ تر مرد اس ویڈیو کے بعد بلک گئے اور کچھ نے سمجھا کہ شاید میں دھوکہ دہی کو صحیح قرار دے رہی ہوں لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ دھوکہ دہی کوئی بھی کرے چاہے مرد یا عورت یہ غلط ہے۔‘
فائزہ کہتی ہیں کہ ’جب وہ وکیل تھیں تب بھی کوشش کرتی تھیں کہ ان کے کسی عمل سے بہتری آئے۔
مجھے لگتا ہے کہ مزاح ایک بہت اچھا طریقہ ہے لوگوں کو بات سمجھانے کا۔ مجھے لوگوں کو ہنسانا اور خوش کرنا پسند ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ جہاں تک مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بات ہے تو میں اتنی خوش فہم نہیں ہوں کہ پورا معاشرہ یکسر تبدیل ہو جائے گا، لیکن اگر دو چار لوگ بھی اچھا سوچ لیں کہ ہاں یار یہ جو بات ہم کرتے ہیں یہ غلط کرتے ہیں تو بس میرے لیے یہ ہی کافی ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں