خلیل الرحمان کہتے ہیں کہ میں اپنے لکھے ہوئے کی حفاظت کرتا ہوں تو لوگ مجھے بدلحاظ سمجھتے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا) ہیں
لنڈا بازار، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، پیارے افضل اور صدقے تمہارے جیسے سپرہٹ ڈراموں کے خالق خلیل الرحمان قمر کہتے ہیں کہ ’میں اپنے لکھے ہوئے کی حفاظت کرتا ہوں تو لوگ مجھے بدلحاظ سمجھتے ہیں لیکن کوئی کیا کہتا اور سوچتا ہے مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔‘
اردو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں جانتا ہوں کہ مجھ پر تنقید ہوتی ہے لیکن میں اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو تنقید نہیں بلکہ جیلسی کہتا ہوں۔ مجھے حسد کرنے والوں پر ترس آتا ہے میں ایسے لوگوں کو بیمار کہتا ہوں اور بیماروں کی صحت یابی کے لئے دعا کرنی چاہیے۔‘
یوں تو خلیل الرحمان کے ریکارڈ پر کافی سپرہٹ ڈرامے ہیں، لیکن آج کل ان کا لکھا ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘کافی مقبول ہورہا ہے، جبکہ حال ہی میں ان کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم ’کنگنا‘ ریلیز ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ کہتے ہیں کہ میرے ڈائیلاگز میں لفاظی بہت زیادہ ہوتی ہے ان سے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میں تو عام حالات میں عامیانہ بات نہیں کرتا تو لکھتے ہوئے کیسے کروں گا؟ اگر کسی میں میرا ڈائیلاگز سمجھنے کی اہلیت نہیں ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ڈائیلاگ نہیں لفاظی ہے تو وہ دراصل اپنی کم عقلی کو کوس رہا ہوتا ہے۔ اور صاف سی بات ہے جو میرا لکھا ہوا سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے میں ان کے لیےلکھتا بھی نہیں، جاہلوں کو سمجھانے کا میرے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
خلیل الرحمان نے اپنے سکرپٹ کے حوالے سے بتایا کہ ’جہاں تک میرے لکھے ہوئے میں تبدیلی کی بات ہے تو کسی کی جرات نہیں ہے کہ وہ میرے لکھے ہوئے میں تبدیلی کرے۔ اگر اداکاراس قابل ہیں کہ وہ لکھ سکتے ہیں تو وہ لکھیں میں ایکٹنگ کر لیتا ہوں لیکن میرے لکھے ہوئے میں اگر تبدیلی کرنے کی کوئی بھی کوشش کرے گا تو وہ دوبارہ میرے کسی بھی ڈرامے یا فلم میں نظر نہیں آئے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک آدمی جو اپنے لکھے ہوئے سکرپٹ کی حفاظت کرے تو اس کو بد لحاظ کہا جائے۔ میری لائنیں شاعرانہ ہوتی ہیں ان کا زرا سا بھی ردھم توڑ دیا جائے تو سین کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے،لہذا مجھے غصہ دکھانا پڑتا ہے اب اس غصے کو جو بھی نام دے دیں۔
خلیل الرحمان قمر نے مزید کہا کہ کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتا ہاں اپنے کام میں مداخلت کرتا ہوں۔ میں کبھی کبھی خود حیران ہوتا ہوں کہ میں نے جو لکھا ہٹ ہوا بلکہ یادگاربن گیا۔ میں کہانیوں کو کھینچتا نہیں ہوں نہ ہی سیکوئل لکھتا ہوں۔ میں کسی بھی لکھنے والے پر تنقید نہیں کروں گا۔
خلیل الرحمان سے جب عروہ حسین ،صبا حمید اور محمود اسلم کے ساتھ ناراضی سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’میں اس حوالے سے صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ یہ کہانی پرانی ہوگئی میں اس کو بھولنا چاہتا ہوں۔ باقی صبا پرویز اور محمود اسلم کی بہت عزت کرتا ہوں پرستار ہوں لیکن اچھے اداکاراور انسان ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں ہر عورت کی عزت کرتا ہوں میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ایک اچھا مرد معاشرہ نہیں چلا سکتا لیکن ایک اچھی عورت معاشرہ ضرور چلا سکتی ہے۔عورت کے پاس انکار کرنے کی قابلیت ہوتی ہے مرد کے پاس یہ قابلیت نہیں ہوتی اور جو عورت اپنی اس قابلیت کو استعمال نہیں کرتی وہ پھسل جاتی ہے اور جب مرد پھسلتا ہے تو گھر برباد ہوتا ہے اگر عورت پھسلے تو نسلیں برباد ہوتی ہیں۔
خلیل الرحمان قمر نے اپنے پسندیدہ لکھاریوں اور اداکاروں کے حوالے سے بتایا کہ وہ عمیرہ احمد ،امجد اسلام امجد، بانو قدسیہ کے رائٹنگ سٹائل کو پسند کرتے ہیں۔ ’میرے حساب سے ہمایوں سعید ،عائزہ خان، مہوش حیات اورماہرہ خان بہترین اداکار ہیں۔ ماہرہ کی اداکاری پر تنقید کرنے والے جاہل ہیں۔‘