انسانی سمگلنگ کا مسئلہ دنیا بھر میں موجود ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا
انسانی سمگلنگ کا مسئلہ دنیا بھر میں موجود ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، تنظیمیں اور افراد انسانی سمگلنگ کے سدباب اور اس کی بیخ کنی کے لیے کام کررہے ہیں۔
سعودی عرب نے انسانی سمگلنگ کے انسداد کی قانون سازی کررکھی ہے تاہم قانون شکن عناصر دیگر ملکوں کی طرح سعودی عرب میں بھی سرگرم ہیں۔
عاجل ویب سائٹ کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن نے انسانی سمگلنگ کے جرائم میں ملوث عناصر کے تعاقب کے لیے خصوصی تدابیر کی ہیں۔
بعض سعودی شہری گھریلو عملہ درآمد کرتے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنے عملے سے کسی اور کے حق میں دستبردار ہونے یا انہیں تنخواہ پر فراہم کرنے یا ان کی خدمات کا دوسروں کے ہاتھوں سودا کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع ابلاغ میں اشتہارات دیتے رہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے ان ساری صورتوں کو انسانی سمگلنگ کے زمرے میں ڈال رکھا ہے۔ جو شخص بھی اس حوالے سے سوشل میڈیا یا ذرائع ابلاغ میں اشتہار جاری کرے گا اسے انسانی سمگلنگ کا مجرم مانا جائے گا۔ کمیشن نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے خبردار کیا کہ جو شخص بھی اپنے گھریلو عملے کی خدمات سے دستبردار ہونے یا اس کی خدمات دوسروں کو اجرت پر فراہم کرنے وغیرہ سے متعلق اشتہار دے گا اس پر انسانی سمگلنگ کی فرد جرم عائد کی جائے گی۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے مقامی اخبارات اور ای میڈیا کے ذرائع کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی شخص سے اس قسم کے اشتہارات نہ لیں۔ اشتہار لینے پر ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق جو فرد یا ادارہ گھریلو عملے کے حوالے سے انسانی سمگلنگ کے جرم کا مرتب پایا جائے گا اسے عدالت کے حوالے کردیا جائے گا۔ کمیشن نے اس ہدف کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی، سماجی اور نگراں اداروں سے تعاون طلب کرلیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے واضح کیا کہ انسانی سمگلنگ سنگین جرم ہے۔ سعودی ریاست اس کی بیخ کنی کے لیے پرعزم ہے۔ یہ جرم انسانی وقار کے سراسر منافی ہے۔ یہ ایک طرح سے انسانوں کا استحصال ہے۔ یہ عصر حاضر میں اجیروں کے ساتھ غلامانہ سلوک کرنے کی شکل ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے مزید کہا کہ جو شخص انسانی سمگلنگ کے جرم میں ملوث پایا جائے گا اسے 15برس تک قید، 10 لاکھ ریال تک جرمانے یا دونوں میں سے کوئی ایک سزا دی جائے گی۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں