انڈیا کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں ایک مسلمان شخص کی سنسکرت زبان کے پروفیسر کے عہدے پر تقرری کے خلاف کئی روز سے مظاہرہ جاری ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان کس طرح سنسکرت اور ہندو مذہب کی تعلیم دے سکتا ہے۔
دھرنا دینے والے طلبہ پروفیسر فیروز خان کی تعیناتی منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پروفیسر فیروز کے تقرر کا دفاع کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرفیسر فیروز تمام امیدواروں میں سب سے قابل ثابت ہوئے اور مذہب کے نام پر ان کے ساتھ تفریق نہیں برتی جا سکتی۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا میں ’طلسمی درخت‘ پر ہنگامہ کیوں کھڑا ہو گیا؟Node ID: 443551
-
مسلمان بابری مسجد فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کریں گےNode ID: 443771
-
انڈیا میں ’اسامہ بن لادن‘ کی موت ہو گئیNode ID: 443801
ٹوئٹر پر ’بی ایچ یو میں فیروز کیوں‘ ٹرینڈ کر رہا ہے اور اس تقرری سے متعلق گرما گرم بحث جاری ہے۔ بعض اسے مذہب کی عینک سے دیکھ رہے ہیں تو بعض اسے لیاقت کی عینک سے۔
فیروز خان کا تعلق انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان سے ہے اور انھوں نے راشٹریہ سنسکرت سنستھان سے تعلیم حاصل کی ہے۔ فیروز سنسکرت زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
انھیں رواں سال ہی صدر جمہوریہ سے انتہائی اہم شہری ایوارڈ پدم شری سے بھی نوازا جا چکا ہے اور انھیں سیکولر طبقے میں انڈیا کی مشترکہ ہندو مسلم تہذیب کے علمبردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایسے میں ٹوئٹر پر جاری مباحثے کے چند ٹویٹس دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج انڈیا کا سماج کس طرح منقسم ہے۔
Those who are trending #BHU_में_फिरोज_क्यों , must first read this message which is there on the website of BHU.
May wisdom dawn upon all of you! pic.twitter.com/7m5VnpOmnX
— Pragya Uike (@PragyaUike) November 18, 2019
پرگیا اوئکے نامی ایک ٹوئٹر صارف نے بی ایچ یو کی ویب سائٹ سے سنیپ شاٹ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو 'بی ایچ یو میں فیروز کیوں؟' ٹرینڈ کروا رہے ہیں انھیں پہلے یہ پیغام پڑھنا چاہیے جو ان کی اپنی ویب سائٹ پر ہے۔
I dont think such issues shd be hyped as it's not the religion but knowledge matters so if he knows sanskrit better & teaches well then doesn't matter whether its firoj or suresh..just be professional.. #BHU_में_फिरोज_क्यों
— Vikram (@Vikram12244841) November 18, 2019
اس شاٹ میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے بانی مدن موہن مالویہ کا بیان ہے جس میں لکھا ہے کہ 'انڈیا صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا ملک بھی ہے۔ ملک اسی وقت ترقی اور قوت حاصل کر سکتا ہے جب انڈیا کی مختلف برادریاں خیرسگالی کے جذبات کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
'وکرم نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'میرے خیال سے اس قسم کے مسئلے کو طول دینا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے بلکہ علم کی اہمیت ہے۔ اس لیے جو سنسکرت بہتر جانتا ہے اور اچھی پڑھاتا ہے اس کی اہمیت ہے چاہے وہ فیروز ہو یا سریش۔ پروفیشنل بنیں۔'
A morally bankrupt society is against a teacher and doesn't want him to be in university. #BHU_में_फिरोज_क्यों
— R. (@r_bigwig) November 18, 2019
جبکہ آر بگ وگ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اخلاقی طور پر دیوالیہ سماج ہی کسی استاد کے خلاف ہو سکتا ہے اور اسے یونیورسٹی میں نہیں چاہے گا۔'
پرشانت بھارتی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’بی ایچ یو کو جے این یو بنانے سے روکا جائے۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جے این یو 'نہرو' کے مقابلے میں بی ایچ یو میں 'ہندو' لفظ نمایاں ہے۔‘
وکیل اور پبلک سپیکر پرشانت پٹیل امراؤ نے لکھا کہ ’ 15 سال بعد شعبہ مذہبیات میں ایک مسلمان پروفیسر ہو گا۔ صدر شعبہ ہو گا، ڈین ہو گا، تقرری کرے گا اور ایک دور آئے گا جب ہندو یونیورسٹی کے ہندو مذہب کے شعبے کا نظام غیر ہندو دیکھیں گے اور اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔‘
انڈیا کے معروف صحافی اپورو انند نے ستیہ ہندی نامی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ’بنارس ہندو یونیورسٹی میں ڈاکٹر فیروز خان کی تقرری کے خلاف مہم جاری ہے۔ یونیورسٹی نے واضح کر دیا ہے کہ ڈاکٹر خان کی تقرری میں تمام ضوابط کی پابندی کی گئی ہے لیکن احتجاج کرنے والے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ تکلیف اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی کی اساتذہ برادری اس معاملے پر خاموش ہے۔ ڈاکٹر خان کی حمایت میں بولنے سے زیادہ ضروری اس مہم کے خلاف بولنا ہے۔‘
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں