Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عاصم باجوہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرپرسن مقرر

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جنرل باجوہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
وفاقی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرپرسن تعینات کر دیا ہے۔
چار سال کے لیے کی گئی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی تقرری ایم پی ون سکیل میں کی گی ہے۔

چیئرپرسن سی پیک اتھارٹی فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

گذشتہ ہفتے امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے کہا تھا کہ ’سی پیک سے صرف چین کو فائدہ ہو گا اور پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ امریکہ نے اس سے بہتر ماڈل تجویز کیا تھا۔‘
ایلس ویلز کے بیان پر تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا اور حکومت کے سینیئر اہکاروں نے ان کے بیان کو مسترد کر دیا تھا۔
اتوار کو ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا ’ہم اس رائے کو مسترد کرتے ہیں اور اس بیان سے سی پیک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘
سی پیک اتھارٹی کیا ہے؟
سی پیک منصوبوں میں تیزی لانے کے لیے  سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔ سی پیک اتھارٹی چیئرپرسن، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز (آپریشنز)، ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ریسرچ) اور چھ ارکان پر مشتمل ہو گی۔
ان تمام عہدوں پر تعیناتیوں کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہو گا۔ تعیناتی کی مدت چار سال ہو گی جس میں ایک بار توسیع بھی کی جا سکے گی۔
اتھارٹی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر گریڈ 20 کا سرکاری ملازم ہو گا جسے ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا جائے گا۔ چیئرپرسن، ایگزیکٹو، ڈائریکٹرز اور ارکان کی قابلیت، تجربے اور تعیناتی کے لیے قواعد و ضوابط (رولز) میں طے کیے جائیں گے۔
اتھارٹی کے فرائض اور اختیارات
سی پیک اتھارٹی کا دائرہ کار پورے پاکستان پر محیط ہو گا۔ اتھارٹی وزارت منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گی۔

سی پیک اتھارٹی منصوبوں سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط یقینی بنائے گی (فوٹو: سوشل میڈیا)

اتھارٹی کو اختیار ہو گا کہ وہ ٹھیکے کر سکے، جائیداد خرید سکے، کسی پر مقدمہ کر سکے یا اپنے خلاف کسی مقدمے کا دفاع اپنے نام سے کر سکے۔ اتھارٹی سی پیک معاہدوں کے تحت جاری منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے اور چین کے ساتھ نئے منصوبوں کے بارے میں تجاویز دے سکے گی۔
اتھارٹی پاکستان اور چین کے درمیان قائم مشترکہ تعاون کمیٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپس کے اجلاس بلانے کے لیے رابطہ کار کا کام کرے گی۔
سی پیک اتھارٹی منصوبوں سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں بین الصوبائی اور بین الوزارتی روابط یقینی بنائے گی۔
سی پیک اتھارٹی کا اجلاس چار ماہ میں ایک بار ہونا لازمی ہو گا۔ اجلاس بلانے کا اختیار چیئرپرسن کے پاس ہو گا، تاہم دیگر تین ارکان کی تحریری درخواست پر اجلاس ہفتے کے پانچ ورکنگ دنوں میں کسی وقت بھی بلایا جا سکتا ہے۔
سی پیک اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوا کریں گے جبکہ اتھارٹی اپنے کورم کا فیصلہ خود کرے گی۔
بجٹ، فنانس اور آڈٹ
سی پیک اتھارٹی اپنا سالانہ بجٹ خود تیار کرے گی اور اس مقصد کے لیے اتھارٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ارکان پر مشتمل تین رکنی ’بجٹ کمیٹی‘ تشکیل دی جائے گی۔ بجٹ کمیٹی  فنڈز کے قواعد کے تحت استعمال کو یقینی بنائے گی۔
اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی منظوری بھی بجٹ کمیٹی سے لینا لازم ہو گا۔
اتھارٹی کے تمام اکاؤنٹس کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کریں گے جبکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کمیٹی کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوں گے۔
سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے ’سی پیک فنڈ ‘ قائم کیا جائے گا۔
یہ فنڈ اتھارٹی کو ملنے والی گرانٹس، اتھارٹی کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم، قرضہ جات اور سرکار کی جانب سے مختص کی گئی رقم پر مشتمل ہو گا۔

اتھارٹی کے تحت سی پیک بزنس کونسل قائم کی جائے گی (فوٹو: سوشل میڈیا) 

اتھارٹی سی پیک بزنس کونسل قائم کرے گی جو اس کے قیام کے مقاصد کے حصول میں معاونت کرے گی۔
اتھارٹی اپنی سرگرمیوں اور کارکردگی پر مشتمل سالانہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرنے کی پابند ہو گی۔
مفادات کا ٹکراؤ
سی پیک اتھارٹی کسی بھی ایسے فرد کو چیئرپرسن، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، یا رکن تعینات نہیں کیا جا سکتا جس کے سی پیک میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مفادات ہوں یا اس کی تعیناتی سے اس سے جڑے کسی بھی فرد کے مفادات پورے ہوتے ہوں۔
کسی بھی ایسے فرد کو اتھارٹی کا حصہ نہیں بنایا جائے گا جس کے کسی ایسے فرد سے تعلقات ہوں جس کے مالی مفادات سی پیک منصوبوں سے وابستہ ہوں۔
اتھارٹی کے چیئرپرسن، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا کوئی بھی رکن اپنی تعیناتی کے عرصے کے دوران کسی دوسری جگہ نوکری یا کوئی اور کاروبار نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی اپنی خدمات کسی فرد یا ادارے کو فراہم کر سکیں گے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: