اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خصوصی عدالت کل جمعرات کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ نہیں سنا سکتی۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ پانچ دسمبر تک پراسیکیوٹر تعینات کرے۔
وزارت داخلہ کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے وقت عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل الیاس بھٹی نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوایا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور پراسیکیوشن کی ٹیم پر بھی اعتراضات اٹھائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی اپنی غلطیاں ہیں، آپ کو خود سدھارنی ہیں، پہلی بار یہ دیکھ رہا ہوں کہ شکایت کنندہ درست نہیں۔
سماعت کے دوران سیکرٹری قانون و انصاف کی عدالت میں عدم حاضری پر ججز نے برہمی کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں
-
مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے ، چیف جسٹس
Node ID: 261386
-
مشرف غداری کیس: حکومتی وکلا برطرف
Node ID: 439736
-
’وزارت داخلہ کی درخواست سنیں گے‘
Node ID: 445011
’لگتا ہے حکومت اب پرویز مشرف کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنانے سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے وزارت داخلہ اور بیرسٹر سلمان صفدر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا ہے۔
یاد رہے کہ سنگین غداری مقدمے میں خصوصی عدالت نے اپنا محفوظ فیصلہ 28 نومبر کو سنانا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے میں وفاقی حکومت کو پانچ دسمبر تک پراسیکیوٹر یا پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت تمام فریقین کو سننے اور فیئر ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد فیصلہ سنائے۔
عدالتی کارروائی کا احوال
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجر بینچ نے وزارت داخلہ کی سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا محفوظ شدہ فیصلہ روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ’ آپ فی الحال اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے عدالت کے سامنے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی تشکیل کو عدالت کے سامنے رکھا تو جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کیا آپ مصدقہ ریکارڈ ساتھ لائے ہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن گزٹ آف پاکستان میں شائع ہو چکا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’خصوصی عدالت کی تشکیل کے نوٹیفیکیشن کی گزٹ آف پاکستان میں شائع ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کہاں ہیں سیکرٹری قانون و انصاف؟‘ وزارت قانون انصاف کے نمائندے نے بتایا کہ ’وزارت قانون کی طرف سے سولیسٹر عدالت میں موجود ہیں۔‘ چیف جسٹس نے سیکرٹری قانون و انصاف کی عدالت میں عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سولیسٹر کو حکم دیا کہ ’جائیں، سیکرٹری صاحب کو فون کر کے بتائیں کہ آدھے گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش ہوں۔‘
جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے سامنے مصدقہ ریکارڈ رکھیں،فوٹو کاپیاں نہ رکھیں۔‘
وزارت قانون و انصاف کے نمائندے عدالت سے باہر چلے گئے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس نے دلائل جاری رکھے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن طلب کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’چیف جسٹس کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کا تقرر ہوتا رہا۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آپ کی درخواست ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں اور اب آپ اپنے دلائل سے ہی اسے درست بتا رہے ہیں، پھر تو آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’لگتا ہے حکومت اب پرویز مشرف کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں۔ آپ عدالت میں کیوں آئے ہیں اگر اس وقت غلطی کی تھی تو آپ یہ معاملہ متعلقہ فورم پر اٹھاتے۔‘
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’خصوصی عدالت میں اس حوالے سے درخواست دائر کی گئی تھی جو کہ اب تک نہیں سنی گئی۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے ریکارڈ مانگا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے کہ ’وزارت قانون والے فائل باہر لے کر چلے گئے ہیں۔‘
ایسے میں وزارت قانون کے نمائندے عدالت میں آئے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ان سے کہا کہ’ آپ فائل لے کر باہر چلے گئے کم سے کم فائل تو یہاں رہنے دیں۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل مطلوبہ نوٹیفیکیشن تلاش کر رہے تھے تو جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’یہ حالت ہے وزارت قانون کی؟ ان کا یہ رویہ ہے، وزارت قانون سے نوٹیفیکیشن بھی ٹھیک طرح سے جاری نہیں ہوتے۔‘
اس دوران سیکرٹری وزارت قانون بھی عدالت پہنچ گئے، جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کیا کہ ’کل جب آپ کو نوٹس دیا تھا تو آپ عدالت میں کیوں تشریف نہیں لائے؟ سیکرٹری وزارت قانون نے کہا کہ ’عدالت نے ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا تھا وزارت کا نمائندہ عدالت میں موجود تھا۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ’ پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے کوئی نئی تقرری نہیں کی۔‘ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے آپ پرویز مشرف کے خلاف کیس لڑنا نہیں چاہ رہے؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ایسا ہر گز نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ جو غلطیاں ہوئیں ان کا فائدہ ملزم کو نہ ملے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو آپ نئی شکایت داخل کر کے غلطی درست کر دیتے۔‘ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ کون سی پٹیشن ہے کہ شکایت کنندہ خود آ کر کہے کہ جو شکایت کی گئی وہ غلط ہے۔ عدالت کی تاریخ میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔‘ جسٹس عامر فاروق نے مزاحیہ انداز میں برجستہ کہا کہ ’اگر عدالتی تاریخ میں مزاحیہ لمحات کا ریکارڈ ہو تو یہ (پٹیشن) ان میں سے ایک ہو گی۔‘
سپریم کورٹ میں غداری کیس میں درخواست گزار توفیق آصف ایڈووکیٹ نے بات کرنا چاہی تو عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ ’تمام غیر متعلقہ لوگ بیٹھ جائیں۔‘ توفیق آصف نے کہا کہ ’میں غیر متعلقہ نہیں، غداری کیس میں سپریم کورٹ میں پٹیشنر تھا۔‘
مجھے کیوں نکالا؟
عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر کو روسٹرم پر طلب کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے سلمان صفدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا سارا کیس ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تو پیش کر دیا ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میں نے پرویز مشرف کا نہیں اپنا کیس پیش کیا ہے۔‘
سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پرویز مشرف کی طرف سے نہیں اپنی طرف درخواست دی ہے۔ مجھے ٹرائل کے دوران کمرہ عدالت سے باہر نکالا گیا ، میرے بیس سالہ کیریئر میں ایسا نہیں ہوا کہ ٹرائل کے دوران وکیل کو عدالت سے باہر بھیج دیا گیا ہو۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’کیا پرویز مشرف کو عدالت نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے کی سہولت دی گئی تھی؟
سلمان صفدر نے بتایا کہ ’سابق صدر بیماری کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں کہ سکائپ پر بیان ریکارڈ کروا سکیں، ملزم کی مرضی کے وکیل کو نہیں سنا جا رہا تو فیئر ٹرائل تو وہیں کمپرومائز ہو گیا۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ ’میرا کیس تو صرف اتنا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟
بیرسٹر سلمان صفدر کے جملے پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔
اس کے بعد ججز نے فیصلہ محفوظ کیا اور کمرہ عدالت سے واپس چیمبر میں چلے گئے۔
چیف جسٹس کا صحافیوں سے مکالمہ
ججز فیصلہ سنانے کمرہ عدالت میں آئے تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی ایک چینل پر میرے نام سے منسوب خبر چل رہی تھی کہ میں نے کہا کہ پرویز مشرف مُکے دکھایا کرتا تھا۔ میں نے تو ایسی کوئی بات ہی نہیں کی، براہ مہربانی رپورٹرز محتاط رہا کریں۔‘ صحافیوں نے کہا کہ ’ہم نے تو ایسی خبر نہیں چلائی۔‘
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آپ کو پتا ہے ہم کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں، وہ رپورٹر اس وقت کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہے۔‘
اس کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سنانا شروع کر دیا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں