رواں ہفتے طلبہ کے مظاہروں نے سب کو چونکا دیا۔ اس لیے کہ ایسے مظاہرے نابود عمل یعنی Extinct Phenomena سمجھا جانے لگا تھا۔ طلبہ کے ایسے مظاہرے ہوئے عشرے گزر گئے۔ سرخ پرچموں اور بینروں کے ساتھ طلبہ نے ملک بھر کے کئی درجن شہروں میں منظم مظاہرے کیے اور توجہ ’توسیع‘ جیسے ڈرامائی یا غیر ڈرامائی معاملے سے کچھ لمحوں کے لیے اپنی طرف لے لی۔
ایسا لگا کہ 1970 کے آس پاس کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔
مظاہرین کا جوش اپنی جگہ لیکن مطالبات اور سوچ غلط تھی، مثلاً تعلیم سب کا حق ہے، یونین بنانا ہمارا حق ہے، روزگار دینا حکومت کی ذمہ داری ہے وغیرہ وغیرہ۔ نہیں عزیز بچو۔ اپنی سوچ کا زاویہ درست کرو۔ اچھی ریاست میں سارے حقوق ریاست کے پاس ہوتے ہیں، عوامی طبقات کی محض ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ مثلاً ٹیکس دینا، مثلاً مزید ٹیکس دینا، مثلاً مقتدر اشرافیہ کی رضا پر راضی رہنا۔ ریاست کبھی کوئی رعایت یا سہولت دے دے (فرض کرنے میں کیا مضائقہ ہے) تو اس پر شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ اسے اپنا حق سمجھنے کی غلطی کی جائے۔
مزید پڑھیں
-
عبداللہ طارق سہیل کا کالم: آخری تجربہNode ID: 440546
-
’ڈیڑھ سو روپے اور نصف صدی پرانی خبر‘Node ID: 444186
-
سچ کی اقسام، عبداللہ طارق کا کالمNode ID: 445156
خدا کا شکر ہے کہ ریاست کے حالات اچھے سے اچھے ہوتے جا رہے ہیں۔ ماضی کی گمراہ کن غلط فہمیاں دور ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلیم سب کا حق ہے کے عنوان والی سنگین غلط فہمی تو استاد بڑے مشرف علی خاں کے دور ہی میں دور ہو گئی تھی۔ ہر ایرا غیرا پڑھنے لگے تو ریاست کے بجٹ کا کیا ہو گا۔ صرف موزوں افراد ہی کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ یہ کلیہ قبلہ نے بنایا اور نافذ کیا۔ موزوں کسے کہتے ہیں اس کا جواب ’مائٹ اِز رائٹ‘ کے فارمولے میں ہے۔ مائٹ کا اصل ترجمہ دولت ہونا چاہیے۔ جس کی کھیسے میں پیسہ، اسی کے ہاتھ میں طاقت اور اسی کے لیے مہنگے تعلیمی ادارے۔
مائِٹ دکھاؤ، داخلہ لو۔ جس کے پلّے نہیں دھیلہ، اسے پڑھائی کے میلے سے کیا لینا۔ اس قاعدے کا فائدہ یہ ہوا کہ اب صرف سلیقہ مند، موزوں افراد ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، غیر مستحق افراد اپنی وہی ذمہ داریاں ادا کریں جو ریاست نے ان کو دے رکھی ہیں۔ آج سے نہیں، آریہ ورش کے زمانے سے۔ ایسی ہی دوسری غلط فہمی علاج معالجے کی سہولت کے بارے میں تھی۔ خدا کے فضل سے اِس دور میں یہ بھی دور ہو گئی ہے۔
خبر، یہ جملہ ہائے معترضہ تو از قسم پند و نصیحت تھے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ 1970 کے آس پاس کے برسوں کی یاد آئی جب ملک بھر میں طلبہ تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کا طوطی بولتا تھا۔ ملک دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھا اور سارے براعظم ایشیا کو سبز یا سرخ کرنے کی ذمہ داری ہمارے ہاں کے ہی دائیں اور بائیں بازو والوں نے اٹھا رکھی تھی۔
دائیں بازو کی سُرخیل طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ تھی جس نے یحیٰی خان اور بھٹو کے دور میں عروج پایا۔ بائیں بازو کی تنظیمیں بھٹو صاحب کے دور میں قدرے کمزور ہو گئیں۔ ضیاالحق نے حکومت پر قبضہ کیا تو جمعیت کا عروج نکتہ عروج پر پہنچ گیا لیکن تھوڑے عرصے کے لیے۔ ضیا دور میں جمعیت کو چیلنج کرنے والی کئی طلبہ تنظیموں کا ظہور ہوا لیکن یہ سب بھی دائیں بازو ہی کی تھیں۔ ضیا حکومت کو جماعت اسلامی کی بھرپور مدد حاصل تھی اور جماعت کو ضیا کی۔ چنانچہ جمعیت کے طلبہ ملک بھر میں مظاہرے کرتے اور نعرے لگاتے ’مرد مومن مرد حق۔ ضیا الحق ضیا الحق۔‘ یہ ہَنی مُون مختصر المعیاد ثابت ہوا۔
ضیا الحق نے ملک کی سیاست کو غیر سیاسی اور جماعتوں کو غیر جماعتی بنانے کا فیصلہ کیا تو جمعیت بھی رگڑے میں آ گئی۔ سیاست کی نرسریاں تعلیمی ادارے تھے۔ انہیں سیاست سے پاک کرنے کی مہم شروع ہوئی اور طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ جمعیت سب سے زیادہ متاثر ہوئی کہ سب سے بڑی جماعت وہی تھی۔ اب جمعیت کے لوگ جلوس نکالتے تو مرد حق کے بجائے ’ہر مال ملے گا دو آنے‘ کے نعرے لگاتے۔ اس نرخ نامے کے مطابق مرد مومن کی قیمت بھی دو آنے ٹھہری۔
یہ 1980 کی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔ تب سے طلبہ تنظیموں پر پابندی چلی آ رہی ہے۔ چار عشرے ہو گئے، ضیاالحق نے جو کل٘ہ جہاں گاڑا تھا، وہیں کا وہیں گڑا ہے۔ کتنی حکومتیں اور گئیں، کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس کلّے پہ میلی نظر ڈال سکے۔ ان حکومتوں سے مراد سیاسی حکومتیں ہیں۔ پرویز مشرف اور حالیہ حکومت کو استثنٰی ہے کہ ان میں اور ضیا الحق میں ہم خیالی کا اشتراک ہے۔
آس پڑوس میں طلبہ تنظیمیں قائم ہیں اور سر گرم بھی، مستقبل کی قیادت انہی سے فراہم ہوتی ہے۔ ہمارا معاملہ شاید مختلف ہے۔ ہماری ایک مجبوری بھی ہے۔ ہمارا ملک مستقل حالت جنگ میں رہتا ہے۔ پڑوسی انڈیا یا بنگلہ دیش یا سری لنکا کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔
سوویت یونین ٹوٹا تو ایشیا کو سرخ یا سبز کرنے کا مسئلہ بھی ختم ہوا۔ امریکہ کا سرخ و سفید رنگ سب پر چھا گیا اور سب نے اس کی رس٘ی کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اب اتنے عرصے کے بعد ’حقوق‘ کی غلط فہمی پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔ خدا خیر کرے۔
-
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں