پولیس نے ان خواتین کے قبضے سے پستول، دستی بم اور بارودی مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ فوٹو: ریڈیو پاکستان
بلوچستان کے ضلع آواران سے عسکریت پسند تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار ہونے والی چار خواتین کو دس دن بعد رہا کردیا گیا۔ بلوچ خواتین کی گرفتاری پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔
خضدار میں ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ آواران سے گرفتار ہونے والی خواتین کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج جان محمد گوہر نے آواران سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماء سردار حیات خان ساجدی کی شخصی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی حکم کے بعد خواتین کو سینٹرل جیل خضدار سے رہا کرکے سردار حیات خان ساجدی کے حوالے کردیا گیا۔
ان خواتین کو پولیس کے انسداد دہشتگردی محکمہ ( سی ٹی ڈی ) اور لیویز فورس نے مشترکہ کارروائی میں تیس نومبر کو بلوچستان کے شورش زدہ ضلع آواران کے علاقے ماشی سے گرفتار کرکے ان کے قبضے سے پستول، دستی بم اور بارودی مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ان خواتین پر آواران میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ کے لیے سہولت کاری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ وزیرداخلہ بلوچستان ضیاءلانگو کا کہنا تھا کہ ان خواتین کو خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں گرفتار کیا تھا۔ یہ خواتین دہشتگرد تنظیموں کے لیے سہولت کاری کرتی تھیں۔
گرفتاری کے بعد چاروں خواتین کو تین دسمبر کو خضدار میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ خضدار میں خواتین کیلئے کوئی لاک اپ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو سینٹرل جیل خضدار میں رکھا گیا تھا۔
بلوچ خواتین کی گرفتاری اور ان کی اسلحہ کے ساتھ گرفتاری کی تصاویر جاری کرنے کی بلوچ سیاسی جماعتوں نے مذمت کی تھی اور سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے گرفتار خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور سینیٹ میں بھی بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے یہ معاملہ اٹھایا۔
انہوں نے غریب بلوچ خواتین کی گرفتاری کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت بے گناہ خواتین کو گرفتار کرکے انسانی حقوق کے ساتھ بلوچ روایات کو بھی پامال کررہی ہے۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم بلوچ یونائیٹڈ آرمی نے بلوچستان کے ضلع کچھی سے رواں ہفتے چار لیویز اہلکاروں کو اغواء کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ بلوچ خواتین کو رہا نہیں کیا گیا تو مغوی لیویز اہلکاروں کو قتل کردیا جائے گا۔