Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ‘

مقابلے کی فضا نے خصوصاً مڈل کلاس کو ٹینشن اور ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے. فائل فوٹو: پکسابے
ہیلو سر، میں سارہ  بول رہی ہوں، میں جانتی ہوں آپ کا فون پرانے ماڈل کا ہے، ہمارا بینک آپ کو نئے موبائل کے لیے بہت ہی کم انٹرسٹ ریٹ پر رقم دے سکتا ہے۔
فون پر صاف اردو اور انگریزی سن کر اکثر لوگ اپنی خواہشات، بیگم کی  فرمائش یا بچوں کی ضد کا سوچ کر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔
میں آپ کو آج اس آفر کے ایک نئے پہلو کی طرف لے جاتی ہوں۔ ہم میں سے تقریباً ہر شخص سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگی دیکھ کر اس جیسا ہی بننا چاہتا ہے، مقابلے کی اس فضا نے خصوصاً مڈل کلاس کو ٹینشن اور ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے، یہ کلاس ایسے ’ان دیکھے‘ قرض میں مبتلا ہو رہی ہے جس کی اسے ضرورت نہیں۔
میں جو بتانے جا رہی ہوں اس کا تعلق آپ کی جاب سے نہیں آمدنی سے ہے یعنی اُس پیسے کے استعمال سے ہے جو ہر ماہ آپ کے اکاؤنٹ میں آرہا ہے۔ زیادہ تر لوگ ’آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ‘ والی غلطی کرتے ہیں۔

زیادہ پیسہ تھوڑے پیسے کو کھینچتا ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے

میرے دادا جان ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں رہتے ہیں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا پڑتا ہے، میں چھوٹی تھی اس وقت دادا کنڈکٹر سے بقایہ ضرور لیتے تھے چاہے پچاس پیسے ہی کیوں نہ ہوتے میں انہیں کہتی دادا جان چھوڑ دیا کریں اس سے کیا ہوتا ہے، انہوں نے مجھے ایک ڈبہ دیا جس میں پچاس پیسے کے سکے تھے اور کہا اس سے تمہارے سکول کی فیس ادا ہو سکتی ہے میں نے بات گرہ سے باندھ لی۔
چھوڑیں ایبٹ آباد  کو، کراچی چلتے ہیں، کھارادر میں ایک سیٹھ شام کو دن بھر کا حساب  کر رہے تھے، کسی پسماندہ علاقے سے آئے لڑکے نے چپکے سے اپنے ایک سو روپے بھی سیٹھ کے پیسوں میں پھینک دیے اور کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ کی نظر پڑی تو پوچھا، کیا بات ہے، لڑکے نے کہا آپ کے پیسوں میں میرے سو روپے ہیں۔ جس پر سیٹھ نے ابھی ’ہیں‘ ہی کہا تھا کہ لڑکا بولا میری امی نے کہا تھا کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، اس لیے آپ کے پیسوں میں ڈالے کہ پیسہ کھینچ لائے۔ جس پر سیٹھ بولا تیری ماں ٹھیک کہتی ہے، زیادہ پیسہ کم کو کھینچتا ہے، میرے پیسوں نے تیرا پیسہ کھینچ لیا، اب نکل یہاں سے۔

 

ویسے تو یہ مذاق کی بات لگتی ہے لیکن اس میں بڑا فلسفہ پوشیدہ ہے یعنی آپ آج پیسہ بچائیں گے تو کل وہی پیسہ جمع ہو کر آپ کی خدمت میں لگے گا۔ دستیاب وسائل اور سادہ طرز زندگی کے بجائے کریڈٹ کارڈز سے خریداری آسان ہو جانے اور بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے باعث ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔
ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمارے آباؤ اجداد اُدھار کو لعنت سمجھتے تھے اور کیش پر چیزیں خریدتے تھے جس سے پیسہ بچ جاتا تھا، لیکن اس کے برعکس آج بے قابو اخراجات اور ’ان دیکھے قرض‘ کے باعث مڈل کلاس یا تو ختم ہو چکی ہے یا خالی جیب کے ساتھ پریشان بیٹھی ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے لائف سٹائل اپ ڈیٹ کرنا اور ظاہری نمود و نمائش کے لیے قرضے اور ڈیبٹ کارڈ کے شکنجے میں پھنسنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ قرض اور کریڈٹ کارڈ کے آسانی سے حصول کے باٰعث  کوئی بھی چیز خریدنا یا لیز پر لینا بہت ہی آسان ہو گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ قرض اور کریڈٹ کارڈ آپ کے ایک کلک کے ذریعے آپ کے گیٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔
یقین مانیں کہ ضرورت کی ہی سہی، مگر ایک بار آپ نے کوئی چیز خرید لی تو پھر  قرض کا ڈر خوف دل سے نکل جاتا ہے جس کے بعد خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم اس امید پر پیسہ قرض لیتے ہیں کہ چلو بعد میں واپس آجائے گا تو قرض اتار دیں گے،  لیکن سچ پوچھیں تو ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے۔

مارے آباؤ اجداد اُدھار کو لعنت سمجھتے تھے اور کیش پر چیزیں خریدتے تھے۔ فائل فوٹو: پکسابے

فرض کریں کبھی آپ کی جاب چلی گئی یا صحت کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہو گیا تو پھر کیا کریں گے؟ آج کل والدین بینک سے قرضہ لے کر مہنگے تعلیمی ادارے میں بچے کو داخل کراتے ہیں ، آمدن نہ رہے تو سکول و کالج  فیس کم نہیں کرتے، آپ بے روزگار ہیں تو اُن کی بلا سے، وقت پر فیس نہ ملے تو بچے کو سکول سے نکال باہر کرتے ہیں۔
 قرض لے کر جو گھر لیا ہوتا ہے، نہ وہ بکتا ہے نہ اسے کوئی خریدتا ہے۔ آپ نے جو برانڈڈ ڈریسز خریدے تھے، اب کوئی کوڑیوں کے مول بھی نہیں لے گا۔ جو جدید ترین سمارٹ فون خریدا تھا، فروخت کرنے مارکیٹ جائیں تو دکاندار آپ کا فون سائیڈ پر رکھ کر آپ کو غریب سمجھ کر دیکھے گا کیونکہ جس فون کو آپ latest Model سمجھ رہے تھے، آپ کی چند دن کی بے خبری میں وہ Odd ہو چکا ہے اور مارکیٹ میں اب تو اس کی ڈیمانڈ ہی نہیں۔ آپ نے جو بڑی سی لگژری گاڑی خریدی تھی اب تو اس کا فیول پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

 

بھئی میں آپ کو ڈرا نہیں رہی لیکن مفت مشورہ سن لیں کہ اگر آج آپ کے پاس اچھی جاب ہے تو پیسہ پانی کی طرح بہانے کے بجائے بچاکر رکھیں۔ اپنے وسائل کے مطابق طرز زندگی اختیار کریں اور  بچوں کی بھی ایسی ہی تربیت کریں۔ باہر جا کر مہنگے ہوٹلوں سے کھانے کی عادت ترک کریں اور اگر منہ کو لگی چٹ پٹے کھانوں کی عادت نہیں چھوٹ رہی تو بوفے کے بجائے عام اور سستا ڈھابے تلاش کریں۔
مشہور ارب پتی وارن بوفیٹ نے کیا خوب کہا ہے ’وہ جو ایک شخص سائے میں بیٹھا سستا رہا ہے ناں، تو بہت پہلے کسی نے اس جگہ درخت لگایا تھا‘ وارن بوفیٹ ماموں کتنے سیانے تھے انہوں نے ہی یہ نصیحت بھی کی ہے کہ ’وہ مت بچائیں جو خرچہ کرنے کے بعد بچ گیا ہے بلکہ وہ خرچ کریں جو بچت کرکے بچایا ہے اور باقی رہ گیا ہے‘

پہلے لوگ  اُدھار کو لعنت سمجھتے تھے جبکہ اب تو ہر چیز قرضے پر ہی لی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو: پکسابے

اگر آپ سوشل میڈیا کے اسیر نہیں ہوئے تو امید کرتی ہوں میری چند باتیں ذہن میں بٹھا لیں گے۔ میرے دادا ابو سمیت ہم سب کے اسلاف اور آباؤاجداد کے آزمودہ نسخے اپنا کر آپ اپنی اور دوسروں کی زندگی نہ صرف آسان بنا سکتے ہیں بلکہ کسی بھی ممکنہ مالی بحران سے بروقت نمٹنے کی حکمت عملی بھی تیار کر سکتے ہیں۔ ان تجاویز پر عمل سے پہلے بیگم صاحبہ اور برگر اینڈ پیزا کڈز سے ضرور مشورہ کر لیں تاکہ ان کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کسی اور ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی ضرورت نہ پڑے۔  

 

 

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: