Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں سوویت جنگ کے اثرات

سوویت یونین نے دسمبر 1979 میں افغانستان پر قبضے کے بعد کلسٹر بموں کا بےدھڑک استعمال کیا تھا فوٹو اے ایف پی
سوویت یونین کو افغانستان سے نکلے تیس سال ہو گئے ہیں لیکن جنگ کے اثرات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
چند ماہ پہلے چودہ سالہ مجتبیٰ ایک بارودی سرنگ کی نذر ہو گیا جو سوویت فوجوں نے افغانستان میں بچھائی تھیں۔
سوویت یونین نے دسمبر 1979 میں افغانستان پر قبضے کے بعد کلسٹر بموں کا بےدھڑک استعمال کیا تھا۔
گزشتہ مئی کی بات ہے کہ ایک دن مجطبیٰ نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ بیر توڑنے کے لیے پہاڑوں کا رخ کیا۔ جب تین دوست گھر واپس نہ لوٹے تو گاؤں والوں نے ان کی تلاش شروع کر دی۔
مجتبیٰ کے والد غلام محی الدین نے نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے جسم کا صرف اوپر کا حصہ تلاش کر پائے تھے۔

 ڈینش فلاحی تنظیم 1999 سے افغانستان کے بیشتر صوبوں کو بارودی سرنگوں سے محفوظ کر رہی ہے فوٹو اے ایف پی

44 سالہ غلام محی الدین کے ذہن میں سوویت جنگ کی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں۔ وہ پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے مجاہدین کے لیے چائے لے جایا کرتے تھے۔
جس جگہ مجتبیٰ اور اس کے دوستوں کی ہلاکت ہوئی تھی، اس کے قریب ایک فلاحی تنظیم نے خطرے سے محفوظ راستے کی سفید رنگ سے نشاندہی کی ہوئی ہے۔
ڈینش ڈیمائننگ گروپ نامی فلاحی تنظیم 1999 سے افغانستان کے بیشتر صوبوں میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کر رہی ہے۔
تنظیم کے صوبہ بامیان کے سربراہ حبیب نور کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم بامیان کے آخری میدان جنگ کو بارودی مواد سے پاک کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں 1986 سے دھماکہ خیز مواد موجود ہے۔
صوبہ بامیان ویسے تو چھٹی صدی کے بدھا کے مجسموں کے لیے مشہور ہے لیکن یہاں بے تہاشا بارودی سرنگیں اور دیگر دھماکہ خیز مواد بھی موجود ہے۔
افغانستان کے 34 صوبوں میں بامیان دھماکہ خیز مواد سے محفوظ ہونے والا پہلا صوبہ ہو گا۔

 صوبہ بامیان کے پہاڑوں میں سوویت دور کی بارودی سرنگیں ابھی بھی موجود ہیں فوٹو اے ایف پی

فلاحی تنظیم کی 16 سالہ اہلکار زرخا نے بتایا کہ چند دن پہلے ہی انہوں نے پہلا کلسٹر بم ناکارہ کیا تھا۔’میں بہت خوفزدہ تھی۔‘
یہ زرخا کے کیریئر کا پہلا کلسٹر بم تھا جو انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ انتہائی احتیاط سے نکال کر ناکارہ بنایا تھا۔  
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس بارودی مواد سے گذشتہ سال 1300 سے زائد افغان ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے۔
زرخا کی ٹیم کے سربراہ  احمد نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک آج بھی سوویت جنگ کی وجہ سے تباہ ہے، جبکہ سوویت یونین کو افغانستان سے نکلے ہوئے تیس سال ہو گئے ہیں۔
’انہوں نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ان کی وجہ سے آج ہمیں بارودی سرنگیں صاف کرنا پڑ رہی ہیں۔ شاید میں انجینئر یا ڈاکٹر بن جاتا۔‘

شیئر: