مختلف رپورٹس کے مطابق اس حملے میں تقریبا 132 طلبہ سمیت 150 کے قریب لوگ مارے گئے تھے (فوٹو:سوشل میڈیا)
وقت آگے بڑھ گیا ہے۔ وقت نے آگے بڑھ ہی جانا ہوتا ہے۔
ملک حسن طاہر اور ان کے دوست اس حادثے کو اب بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں جس نے پوری دنیا کو دہلا دیا تھا۔
اب وہ دنیا کے مختلف حصوں میں یا تو نامی گرامی درسگاہوں میں اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں یا پھر مختلف اداروں میں اپنے پیشہ وارانہ کیریئر کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔
لیکن روزمرہ کی مصروفیت میں شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو گا جب وہ اپنے ان ساتھیوں کو یاد نہ کرتے ہوں جو اس سانحے میں ان سے چھین لیے گئے تھے۔
آج آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کو پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن اب بھی اس سال سے منسوب ذرا سا بھی کوئی واقعہ ملک حسن طاہر اور ان کے دوستوں کو 16 دسمبر کی اس سرد صبح میں واپس لے جاتا ہے جب طالبان نے ان کے سکول آڈیٹوریم پر حملہ کیا تھا اور پھر مختلف کلاس رومز میں جا کر چن چن کرطلبہ اور اساتذہ کو نشانہ بنایا تھا۔
مختلف رپورٹس کے مطابق اس حملے میں تقریباً 132 طلبہ سمیت 150 کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ان میں پہلی جماعت کی چھ سالہ بچی سے لے کر 18 سال کی عمر تک کے طالب علم شامل تھے۔
’میں تو فائرنگ سے بچ گیا لیکن میرا بھائی شہید ہو گیا‘
اس وقت ملک حسن طاہر بھی آڈیٹوریم میں موجود تھے۔ وہ خود تو بچ گئے لیکن ان کے بھائی اسامہ دہشت گردوں کا نشانہ بن کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم اکھٹے بیٹھتے ہیں، تو گپ شپ میں اس دن کا منظر بھی آ جاتا ہے، پرانی باتیں کرتے ہیں۔ اس واقعے کو یاد کر کے ہم دوستوں کا موڈ آف ہو جاتا ہے، کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہیں لیکن پھر وہی کہ زندگی نے تو آگے بڑھنا ہے تو ٹاپک چینج کر لیتے ہیں۔‘
یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے ملک حسن طاہر کی آواز گلو گیر ہو جاتی ہے۔
حسن طاہراب پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی میں سوفٹ ویئر انجنیئرنگ کے تیسرے سمسٹر کے طالب علم ہیں۔
آرمی پبلک سکول کی جانب سے جب سانحے کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے کارڈ ان کے گھر پہنچتا ہے تو ان کے خاندان کے لیے سانحہ کا دن پھر سے تازہ ہو جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’فرسٹ ایڈ کی تربیت کے لیے دوسرے طالب علموں کے ساتھ میں بھی ہال میں موجود تھا۔ میں تو فائرنگ سے بچ گیا لیکن میرا بھائی اسامہ شہید ہو گیا۔ دہشت گردوں کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم آگے بڑھ نہ سکیں لیکن ہم نے آگے جانا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں کا سوفٹ ویئر انجنیئر بننے کا خواب تھا جس کو میں اب اکیلے پورا کر رہا ہوں۔‘
ملک حسن طاہر کے ایک دوست محمد انس جنہیں دائیں ہاتھ پر دو گولیاں لگیں تھی اور اس کی وجہ سے انہوں نے معمول کا کام کرنا چھوڑ دیا تھا، اب پشاور یونیورسٹی میں شعبہ سوشیالوجی میں بی ایس کے طالب علم ہیں۔
محمد انس کو اب بھی جب وہ سانحہ یاد آتا ہے تو وہ اپنے آپ میں نہیں رہتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں آگے جانا چاہتا ہوں، مجھے (پل پل) میرے دوست یاد آتے ہیں، شہید دوستوں کے گھر بھی جاتا ہوں۔‘
آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد اس سانحے کی پہلی برسی سے قبل چار شدت پسندوں کو پھانسی دی گئی لیکن متاثرہ خاندانوں کا موقف ہے کہ آج تک ان کو انصاف نہیں ملا۔
آرمی پبلک سکول میں شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے بچوں کے والدین نے آرمی پبلک سکول شہدا کے نام پر ایک فورم بنایا تھا۔
’متاثرہ خاندانوں کی تکالیف کا مداوا نہیں ہو سکتا‘
آرمی پبلک سکول شہدا فورم کے صدر فضل خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ گذشتہ سال سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنایا اور دو مہینوں میں تحقیقات کا حکم دیا تاہم ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود اس کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔
ان کے مطابق پانچ برس گزر گئے لیکن انصاف کے لیے ہماری آہ و بکا ویسے ہی ہے۔
فضل خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’یہ واقعہ ایسا نہیں تھا کہ کسی دور دراز علاقے میں ہوا ہو، بلکہ ایک اہم شہر کی چھاؤنی میں ہوا۔ اس سکول پر حملے کا تھریٹ الرٹ بھی جاری ہوا تھا لیکن صوبائی حکومت نے اقدامات نہیں لیے۔ سکیورٹی کی ناکامی کا ہمارے پولیس کے سربراہ نے بھی اقرار کیا تھا، ہوم سیکریٹری نے بھی اقرار کیا تاہم بد قسمتی سے کسی بھی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی اور نہ سرزنش کی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب تک ملزموں کو سزا نہیں مل جاتی ہم سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث سہولت کاروں کو بھی سزا نہیں ملی۔ ’ہمیں بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ یہ حملہ تحریک طالبان نے کیا ہے اور اس کی ذمہ داری اس وقت کے تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی، اسے ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔‘
آرمی پبلک سکول شہدا فورم کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں انصاف کے لیے متفرق درخواستیں بھی دی جا چکی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’آرمی پبلک سکول بہت بڑا افسوس ناک واقعہ ہے جس میں کسی کا بیٹا، کسی کا بھائی تو کسی کی ماں اور بہن شہید ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے متاثرین کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کیا ہے لیکن وہ کچھ بھی کرلیں متاثرہ خاندانوں کے نقصان اورتکالیف کا مداوا نہیں ہو سکتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگرتحفظات ہیں تو صوبائی حکومت سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔