Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یونیورسٹی میں پہلی بار اسلحہ استعمال ہوا‘

تصادم کے نتیجے میں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کیا گیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جمعرات کی رات دو طلبہ گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد تاحکم ثانی بند ہے اور  طلبا اور طالبات اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ پر ٹیکسی اور پرائیوٹ گاڑیوں کی قطاریں ہیں کیونکہ بوائز ہاسٹل کے بعد گرلز ہاسٹل میں رہائش پذیر طالبات کو بھی گھروں کو جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔ انتظامہ کے حکم کے بعد طالبات از خود یا پھر اہل خانہ کے ساتھ گھروں کو روانہ ہو رہی ہیں۔
یونیورسٹی کے طلبا پر امن تعلیمی ماحول کی خرابی پر افسردہ ہیں۔ طلبا کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں پہلی بار اسلحے کا استعمال ہوا جو خوفناک ہے۔ انتظامیہ اگر اپنی ذمے داریوں سے غفلت نہ برتتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔

 

جمعرات کو مبینہ طور پر اسلامی جمعیت طلبا کے ایجوکیشن ایکسپو کے سلسلے میں جاری تقریب پر دوسری تنظیموں کے حملے کے نتیجے میں ایک طالب علم ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے یونیورسٹی کا کنٹرول سنبھال کر ہاسٹل خالی کر لیے تھے۔ اس وقت ہاسٹلز میں صرف غیر ملکی طلبا کو رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یونیورسٹی میں کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں۔ جو طلبا رات کو خوف کے مارے نکل گئے تھے انھیں خصوصی اجازت کے ساتھ اپنا سامان اٹھانے کی اجازت ہے۔

طالبات نے رات کیسے گزاری؟

اس واقعے کے بعد طالبات نے رات پریشانی کے عالم میں گزاری۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عائشہ تسکین نے کہا کہ 'ہاسٹل میں تھے جب واٹس ایپ پر میسیج ملا کہ لڑکوں کی لڑائی ہوگئی ہے۔ ہماری طرف بظاہر کوئی مسئلہ تو نہیں تھا لیکن خوف و ہراس ضرور تھا۔ ساری رات جاگ کر گزاری۔ گھر والوں کو الگ پریشانی تھی اور وہ بار بار فون کر رہے تھے۔‘

اس وقت یونیورسٹی ہاسٹلز میں صرف غیر ملکی طلبا کو رہنے کی اجازت دی گئی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

طالبہ سمیعہ منیر کے مطابق ’ایکسپو کے آخری دن طالبات کو جانے کی اجازت تھی۔ دن میں کچھ غیر معمولی صورت حال تھی ضرور لیکن وجہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھی۔ اب تو کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹی آٹھ دن بند رہے گی۔‘

رات بھر بوائز ہاسٹل میں کیا ہوتا رہا؟

ہاسٹل سے نکلتے طالب علموں کے مطابق تصادم کے بعد انتظامیہ کے لوگ کمروں میں آئے اور ہاسٹل فوراً خالی کرنے کا کا کہا۔
طالب علم جاوید خان نے بتایا کہ ' کمرہ خالی کرنے کے لیے اتنا دباؤ ڈالا کہ میرا روم میٹ رات تین بجے کمرہ خالی کرکے چلا گیا۔ میں نے کہا کہ میں صبح سویرے کمرہ خالی کروں گا۔ پیسے بھی کم تھے، گھر سے پیسے منگوا کر ہی کمرے سے نکلا ہوں۔'
ایک اور طالب علم سعد یعقوب نے کہا کہ 'برستی بارش میں رات بارہ بجے کہا کہ کمرے خالی کرو۔ ساری رات ٹھٹھرتے ہوئے باہر گزاری۔ ابھی کسی سے سفارش کرا کے اجازت لی اور اپنا سامان اٹھا لیا۔‘
طالب علموں کے مطابق پولیس نے مخصوص کمروں کی تلاشی لی لیکن زیادہ تر کمرے ویسے ہی خالی کروا کر عام طالب علموں کے لیے رات مشکل بنا دی۔

واقعہ پیش کیوں آیا؟

طلبا اور طالبات اس بات پر متفق ہیں کہ طلبا تنظیموں کے درمیان جھگڑا اور اس میں اسلحے کا استعمال یونیورسٹی اور ہاسٹل انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ طالبہ ثانیہ بتول نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'واقعہ اس لیے پیش آیا کیونکہ سکیورٹی اچھی نہیں تھی۔ اسلحہ لانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ ہمارے تو سامان کی تلاشی لیتے ہیں۔ ہیٹر لے آئیں تو مسئلہ بن جاتا ہے۔ لڑکوں سے یونیورسٹی انتظامیہ ڈرتی ہے۔'

ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک طلبا تنظیم کے پر امن پروگرام پر حملہ کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

طالب علم علی حسن کا کہنا ہے کہ 'طلبا تنظیموں کے درمیان معاملہ پہلے سے چل رہا تھا۔ ہاسٹل پرووسٹ صورت حال سے واقف تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے سکیورٹی انتظامات نہیں کیے۔ اب ان تنظیموں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘

انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟

یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل خالی کروا کر تعلیمی سرگرمیاں تاحکم ثانی معطل کر دی ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک طلبا تنظیم کے پر امن پروگرام پر حملہ کیا گیا۔ اب تک 16 طالب علموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔اس واقعے کے بعد بیشتر طلبا کا خیال ہے کہ ایسے واقعات سے طلبا یونینز کی بحالی کے جائز اور قانونی مطالبے کو دھچکا پہنچتا ہے۔ عام طالب اور والدین اس صورت حال میں طلبا یونینز اور تنظیموں کو غیر ضروری بلکہ تعلیم کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔

شیئر: