شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس نے چکڑ چھولے نامی ڈش کا نام نہ سنا ہو۔ عام طور پر لوگ اس کو لاہوری ڈش سے منسوب کرتے ہیں۔
لاہور کے کسی بھی علاقے سے گزریں جیسا کہ ٹاون شپ، گلبرگ، ماڈل ٹاؤن لکشمی یا پھر انار کلی یقینا میں ڈی ایچ اے یا بحریہ ٹاون کی بات نہیں کر رہے تو آپ کو چکڑ چھولوں کے مخصوص ٹھیلے نظر آئیں گے۔
جہاں ایک آٹھ کونوں والا برتن جو کھلے دیگچہ نما ہوتا ہے، لکڑی کا یہ برتن ہی چکڑ چھولے کی پہچان ہے۔
لاہور کے ریگل چوک میں 40 سال سے چکڑ چھولے بیچنے والے محمد ظفر لاہور کے ان چند افراد میں سے ہیں جو نسل در نسل چکڑ چھولے بیچ رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا کہ چکڑ چھولے ہوتے کیا ہیں یا ان کو چکڑ چھولے کہا کیوں جاتا اور عام چنوں کی کسی بھی ڈش سے یہ مختلف کیسے ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’چکڑ چھولے اس لیے چکڑ چھولے کہلاتے ہیں کیونکہ یہ ایسی ڈش ہے جو گھی میں تیار نہیں ہوتی اور نہ اس میں لہسن، ادرک جیسے روایتی سبز مصالحہ جات ڈالے جاتے ہیں۔ یہ صرف پانی میں پکتے ہیں اور کالی مرچ کے علاوہ دیگر گرم مصالحے ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ڈش پانی میں بنتی ہے شاید اسی لیے اسے چکڑ چھولے کہا جاتا ہے۔‘
چکڑ چھولے تیار کیسے ہوتے ہیں؟
محمد ظفر نے بتایا کہ عام طور پر وہ آٹھ سے 10 کلو سفید چنے رات کو پانی میں بھگو کر رکھتے ہیں اور علی الصبح انہیں پکانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کو سب سے پہلے ابالا جاتا ہے جس سے چنے مکمل نرم ہو جاتے ہیں اس کے بعد کالی مرچ اور دیگر مصالحوں میں ان کو نرم آنچ پر پکایا جاتا ہے اور اس تناسب سے پانی ڈالا جاتا ہے کہ پانی کے خشک ہونے تک چکڑ چھولے تیار ہو جاتے ہیں۔
محمد ظفر کے مطابق ’یہ جو مخصوص برتن ہے جسے ہم ٹاپہ بولتے ہیں یہ شیشم کی لکڑی کا بنا ہوتا ہے ہم چھولے اس میں انڈیل دیتے ہیں تو شیشم کی لکڑی رہا سہا پانی بھی چوس لیتی ہے اور کھلا برتن ہونے کی وجہ سے یہ فوری ٹھنڈی بھی ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ چکڑ چنے ایسی ڈش ہے جو جتنی ٹھنڈی ہوگی اتنی لذیذ ہو گی۔ آپ اس کو گرم کریں گے تو وہ ذائقہ نہیں لے پائیں گے جو چکڑ چھولے کا ہوتا ہے۔
محمد ظفر نے بتایا کہ صرف چکڑ چھولے ہی کھانے کے لیے پیش نہیں کیے جاتے ان کے ساتھ نان اور خاص طرح کی سلاد اور چٹنی بنائی جاتی ہے آپ ان ساری چیزوں کے بغیر چکڑ چھولے کھائیں گے تو وہ چکڑ چھولے نہیں ہوں گے۔
ٹاپہ نامی اس آٹھ کونوں والے برتن کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ انہیں اس بات کا تو نہیں پتا کہ اس کے اتنے کونے کیوں ہوتے ہیں کیونکہ جب ان کے والد یہ کام کرتے تھے تب بھی یہی ٹاپہ استعمال ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ٹاپہ دو سے تین سال چل جاتا ہے اور پھر نیا بنوانا پڑتا ہے اور لاہور میں اس کے چند ایک ہی کاریگر ہیں۔ جو نسل در نسل سے ہی یہ بناتے ہیں۔
چکڑ چھولوں کی تاریخ
40 سال سے چکڑ چھولے بیچنے والے محمد ظفر کو یہ تو نہیں پتا کہ چکڑ چھولوں کی اس ڈش کی تاریخ کتنی پرانی ہے تاہم انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ وہ ہندوستان سے جب ہجرت کر کے آئے تو ان کے والد اس ڈش کے ماہر تھے اور انہوں نے یہاں اپنے کئی شاگرد پیدا کیے۔
محقق و مصنف یاسر جواد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ درست طور پر یہ جاننا مشکل ہو گا کہ اس ڈش کا آغاز کہا سے ہوا لیکن یہ ضرور بتایا جا سکتا ہے کہ چکڑ چھولے لاہوری ڈش نہیں ہے اس کے مصالحوں کی وجہ سے گمان ہے کہ یہ کشمیری ڈش ہے۔
یاسر جواد کے مطابق اگر قدیم پنجاب کی بات کریں تو مصالحے اور چنے دونوں کا تعلق ہی پنجاب سے نہیں یہاں کی اپنی لوکل ڈشیں تو ساگ وغیرہ ہیں اور آپ جان سکتے ہیں کہ وہ مصالحہ دار ڈشیں نہیں ہیں۔ چنے بھی وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہندوستان میں آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کھانے کی ڈش جب ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پھیلتی تو اپنے لوازمات کے ساتھ ہی پھیلتی ہیں۔ مثلاً آپ ساگ کو یورپ کے کسی علاقے میں لے جائیں اور مٹی کی ہانڈی میں اسے پکائیں اور یہ ڈش وہاں مقبول ہو جاتی ہے تو مٹی کی ہانڈی پھر ساگ کا لازمی جزو ہو گا۔ بالکل چکڑ چھولے بھی ایسے ہی ہے جب یہ ڈش آئی تو اپنے لوازمات بھی ساتھ لائی اب یہ ٹاپہ اس کی علامت ہے اس کی پہچان ہے۔
لاہور میں اس وقت تقریباً سو کے لگ بھگ چکڑ چھولے بیچنے والے ہیں اور عام طورپر چکڑ چھولے لنچ کے طور پر کھائے جاتے ہیں البتہ گرمیوں میں ان کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے ایک تو گھی نہ ہونے کی وجہ سے معدے پر ہلکے ہوتے ہیں دوسرا پودینے اور آلو بخارہ کی چٹنی ساتھ ہونے کی وجہ سے ان کا ذائقہ دو بالا ہو جاتا ہے۔ اور یہ جیب پر بھی ہلکے ہیں کیونکہ 50 سے 70 روپے میں آپ پیٹ بھر کے کھانا کھا سکتے ہیں۔