پاکستان میں تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے وزرا کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا کریں گے اور اسی پر ان کی وزارت برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کیا کریں گے۔
ان کے اس اعلان کے بعد وفاقی کابینہ میں شامل وزرا کی کارکردگی کی خبریں میڈیا میں گردش کرنے لگیں۔ کبھی یہ خبر سامنے آتی کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کارکردگی میں سب سے آگے ہیں تو کبھی وزیر مواصلات مراد سعید اور شیخ رشید کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہوتا۔
لیکن ایک ایسے ماحول میں جہاں آج بھی مختلف وزارتیں اور ان کے وزیر اپنی معمولی سی سرگرمی کی بھی تشہیر کے ذریعے وزیراعظم عمران خان سے داد و تحسین پانے کے خواہشمند ہیں، ایک وزارت ایسی بھی ہے جس نے گزشتہ پورا سال نہ تو کوئی خاص کارکردگی دکھائی اور نہ ہی اس کے ذمہ داروں کو اس کی کسی تشہیر کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
’نوجوانوں کو نوکریوں کے حوالے سے سبز باغ دکھائے گئے‘Node ID: 423246
-
سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ نہیں ہوگاNode ID: 448961
-
وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے ’میڈیا سے بات نہ کریں‘Node ID: 449226
ماضی میں اہم سمجھی جانے والی وزارت برائے سرحدی امور و ریاستیں (سیفرون) قبائلی علاقہ جات، مہاجرین کے امور اور پاکستان کے اندر ریاستوں کی نگران رہی ہے۔
لیکن سال 2019 میں اس وزارت کے حوالے سے کسی بڑے منصوبے کا ذکر نہیں آیا۔ جب فاٹا اصلاحات کے ذریعے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تو اس وزارت کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ یہ وزارت ختم تو نہیں ہوئی لیکن اس کے تحت کوئی خاص کام بھی نہیں ہوا۔
2019 میں اس وزارت کا سب سے بڑا کام سال کے آخری مہینے دسمبر میں مہاجرین کے مسئلے پر جنیوا میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کرنا تھا۔
اس کانفرنس کے بارے میں بھی میڈیا کو وزیراعظم عمران خان کی سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا روانگی سے چند روز پہلے علم ہوا۔
اپریل 2019 میں جب شہریار آفریدی کو وزیر مملکت سیفران بنایا گیا تو اس وقت کہا جاتا رہا کہ حکومت نے شہریار آفریدی کو اس وزارت کا وزیر بنایا جو ختم ہو چکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نومبر میں وفاقی کابینہ میں رد و بدل کے دوران صاحبزادہ محبوب سلطان کو سیفران کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔
وزارت کے پاس اس وقت افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور وطن واپسی، پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں کے والیان کو ماہانہ مشاہرہ دینا اور وفاقی لیویز کے معاملات ہیں۔
ماضی میں اس وزارت کے تحت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں، خاصہ دار فورس، فاٹا کیڈٹ کالجز، افغان مہاجرین سمیت متعدد ریاستی امور رہے ہیں۔
اب کام نہ ہونے کے باوجود اس وزارت میں نہ صرف ایک وفاقی وزیر، ایک وزیر مملکت اور ایک پارلیمانی سیکرٹری کا تقرر کیا گیا ہے بلکہ اس کے پاس اتنا ہی عملہ موجود ہے جتنا پاکستان کے ایک عام وفاقی ڈویژن کا ہوتا ہے۔
وزارت سیفران کے سابق سیکرٹری پیر بخش جمالی نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس محکمے کے پاس اب عملی طور پر کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔
’سیفران کے پاس اب ایک وزارت یا ڈویژن کا کام باقی نہیں بچا۔ افغان مہاجرین کے امور بھی ایسے ہیں جیسے ایک ڈارمنٹ بینک اکاؤنٹ ہوتا ہے۔‘
’افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور واپسی کا طریقہ کار گزشتہ دور حکومت میں طے پا گیا تھا اور اس پر عمل بھی جاری ہے۔ افغان حکومت بھی رضا مند ہو گئی تھی۔ اب ایک وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور پارلیمانی سیکرٹری کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ بلند کر چکے ہیں، سیفران کی وزارت کی ویب سائٹ کا یہ حال ہے کہ اس کے مطابق وزارت کا کوئی وفاقی وزیر ہی نہیں ہے۔
وزارت کی طرف سے ویب سائٹ پر آخری مواد اگست 2019 میں شائع کیا گیا تھا جو وزیراعظم آفس کے منصوبے سیٹیزن پورٹل کا ایک اشتہار تھا۔
وزارت کی ویب سائٹ پر جو آخری پالیسی اپ لوڈ کی گئی ہے وہ 2014 کی فاٹا کے اداروں میں مخصوص نشستوں پر بھرتی کے لیے ہدایت نامہ ہے ۔
سال 2019 میں وزارت کا ایک اور قابل ذکر کام وفاقی حکومت کے فیصلے کے مطابق اپنی روزمرہ کی خط و کتابت ای آفس کے ذریعےشروع کرنا ہے۔
وزارت کی کارکردگی سے متعلق اردو نیوز نے وفاقی وزیر صاحبزادہ محبوب سلطان، وزیر مملکت شہریار آفریدی، وفاقی سیکرٹری محمد اسلم کمبوہ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہ ہوسکے۔
وزارت کی ترجمان عذرا جمالی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’وزیراعظم کے دفتر نے کارکردگی رپورٹ مانگی تھی جو ان کو بھجوا دی گئی ہے۔ لیکن وزارت کے حکام نے سرکاری طور پر طے کیا ہے کہ ( کارکردگی ظاہر کرنے والی) یہ رپورٹ میڈیا سمیت کسی کو جاری نہیں کی جائے گی۔‘
اس سوال پر کہ وزارت کی ویب سائٹ پر کارکردگی متاثر کن دکھائی نہیں دیتی تو ترجمان نے کہا کہ ’اعلیٰ افسران سے پوچھ کر کل جواب دوں گی۔‘
لیکن اگلے روز جب ان سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی گئی تو ترجمان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں