پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے بعد اب حکومت نے وفاق اور صوبہ پنجاب میں بھی سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد میں تین سال کی توسیع کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب وزیراعظم آفس کے خط کے مطابق اس ضمن میں سیکرٹری خزانہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے محکمہ خزانہ کے ساتھ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کے قانونی اور مالی اثرات کے حوالے سے مشاورت کریں۔
سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 63 سال کرنے پر ایک سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ جب گریڈ 21 یا 22 کا ایک افسر ریٹائر ہوتا ہے تو اسے واجبات اور پینشن کی مد میں 50 سے 60 لاکھ روپے ملتے ہیں، اگر اس سال 60 سال کی عمر کو پہنچنے والوں کو تین سال کی توسیع مل جائے تو تین سال تک ریٹائرمنٹ کے قریب سرکاری ملازمین کو اربوں روپے کی ادائیگیاں نہیں کرنا پڑیں گی جس سے ملکی معیشت کو کچھ سہارا ملے گا۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہا کہ ماضی میں بھی ایسی تجاویز آتی رہی ہیں تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھانے کا ایک نقصان یہ ہو گا کہ بیوروکریسی میں ترقیاں رک جائیں گی اور خالی نشستوں کے باوجود نئی بھرتیاں نہیں کی جا سکیں گی۔ نوجوانوں کو نوکریوں کے حوالے سے جو سبز باغ دکھائے گئے ہیں اس سے حکومت کو سیاسی نقصان ہو گا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت اس کا جواز پہلے ہی دے چکی ہے کہ نوکریاں سرکار نہیں دیتی بلکہ ایسے سازگار حالات پیدا کیے جاتے ہیں جس سے نجی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ ’اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے تو اعلیٰ بیورو کریسی کو فائدہ ہو گا جبکہ ترقیوں کے منتظر افسران کو مایوسی ہو گی۔ دوسری جانب اس تجویز پر عملدرآمد کے بعد سیشن جج جو 63 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں ان کی عمر کی حد 65 سال، ہائیکورٹ کے ججوں کی عمر 62 سے 64 سال جبکہ سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 65 سے بڑھا کر 68 سال کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ فی الحال اس میں افواج کو شامل نہیں کیا گیا لیکن بعد میں ان کی مدت ملازمت میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر وفاقی ملازمین سے متعلق رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اس وقت وفاقی ملازمین کی تعداد 15 سے 16 لاکھ کے درمیان ہے جبکہ 12 فیصد نسشتیں خالی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق وفاقی اداروں میں منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد چھ لاکھ 60 ہزار، 657 ہے جس میں پانچ لاکھ 81 ہزار 240 ملازمین موجود ہیں۔ خواتین ملازمین کی تعداد 32 ہزار 334 ہے جبکہ 79 ہزار 417 سیٹیں خالی ہیں۔
وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے دیگر اداروں میں منظور نشستوں کی تعداد چھ لاکھ 35 ہزار335 ہے جس میں پانچ لاکھ 60 ہزار سے زائد نشستیں پُر ہیں جبکہ 75 ہزار 232 نشستیں خالی ہیں۔ ملحقہ اداروں میں خواتین ملازمین کی تعداد 31 ہزار سے زائد ہے۔
وفاق کی سطح پر 203 خود مختار، نیم خومختارادارے، اتھارٹیز اور کارپوریشنز ہیں جن میں منظور شدہ نشستوں کی تعداد 4 لاکھ 92 ہزار 564 ہے جن میں سے 95 ہزار سے زائد نشستیں خالی ہیں جبکہ تین لاکھ 97 ہزار 487 ملازمین موجود ہیں۔
صرف وفاقی سیکرٹریٹ ملازمین کی منظور شدہ نشستوں کی تعداد 25 ہزار سے زائد ہے جن میں سے چار ہزار نشستیں خالی ہیں اور 21 ہزار سے زائد ملازمین اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے دستیاب ہیں۔
