Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈین آرمی چیف کا سیاسی بیان فوج کے غیر جانبدار کردار پر ضرب ہے‘

رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’ان کا بیان مودی حکومت کو کم تر دکھاتا ہے۔‘ فوٹو:اے ایف پی
انڈیا کی بری فوج کے سربراہ بپن راوت نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ لیڈر بھیڑ میں سے ابھرتے ہیں لیکن وہ افراد لیڈر نہیں ہوتے جو لوگوں کو غلط سمت میں لے جاتے ہیں۔
فوج کے سربراہ بپن راوت کے اس بیان کو غیر معمولی طور پر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیربحث لایا جا رہا ہے۔ انڈیا میں روایت رہی ہے کہ فوجی سربراہ سیاسی معاملات پر بیان نہیں دیتے اور حکومت کے امور سے دور رہتے ہیں۔  
آرمی چیف کے بیان پر آل انڈیا اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’ان کا بیان مودی حکومت کو کم تر دکھاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اپنی ویب سائٹ پر لکھتے ہیں کہ ایمرجنسی (1975-77) میں وہ ایک طالب علم کے طور پر مظاہروں میں شریک ہوتے تھے۔ تو کیا فوجی سربراہ کے بیان کے مطابق وہ بھی غلط تھے۔‘
خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق فوجی سربراہ نے دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’رہنما وہ نہیں ہوتے جو لوگوں کو نامناسب سمت میں لے جائیں۔ ہم بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو دیکھ رہے ہیں جو مختلف شہروں میں ہجوم کو آتشزدگی اور تشدد پر ابھار رہے ہیں۔ یہ قیادت نہیں ہے۔‘
اس کے جواب میں اسدالدین اویس نے لکھا: ’اپنے اختیارات کی حد کو جاننا ہی قیادت ہے۔ یہ عوام کی حکومت کی فوقیت کو سمجھنا ہے اور اس ادارے کی سالمیت کو محفوظ رکھنا ہے جس کی آپ سربراہی کر رہے ہیں۔‘
فوج کے سربراہ بپن راوت کے بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کی فوج کو دنیا میں اس لیے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ ’ان کا یہ بیان فوج کے غیر جانبدار کردار پر ضرب ہے۔‘
جنرل راوت 31 دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں لیکن اس سے قبل ان کا یہ بیان جہاں ان کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے وہیں ان کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے اور حکومت شاید انہیں چیف آف ڈیفنس سٹاف بنا دے۔
دوسری جانب انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے بدستور جاری ہیں اور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹا جا رہا ہے جبکہ مغربی بنگال میں تو وزیراعلیٰ ممتا بینرجی خود اس قانون کی مخالفت کی قیادت کر رہی ہیں۔ 
اس بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کی اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ آئین کے مختلف آرٹیکل کے مخالف ہے اور یہ انڈیا کی سیکولر روح کے منافی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتاہے اور اس بل میں مذہب کی بنیاد پر واضح امتیاز نظر آتا ہے اور یہ انڈیا کی سب سے بڑی اقلیتی برادری مسلمانوں کے خلاف ہے۔
بی جے پی حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر چند کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دنوں رام لیلا میدان میں کہا کہ یہ قانون کسی بھی شہری کے خلاف نہیں ہے تاہم لوگ ان کی بات کو تسلیم کرنے کے تیار نہیں ہیں۔
دوسری جانب آج وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ کانگریس پارٹی کی قیادت میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ جو دہلی میں بدامنی کے لیے ذمہ دار ہے اس کو سزا دینے کا وقت آ گیا ہے۔ 

شیئر: