انڈیا کی بری فوج کے سربراہ بپن راوت نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ لیڈر بھیڑ میں سے ابھرتے ہیں لیکن وہ افراد لیڈر نہیں ہوتے جو لوگوں کو غلط سمت میں لے جاتے ہیں۔
فوج کے سربراہ بپن راوت کے اس بیان کو غیر معمولی طور پر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیربحث لایا جا رہا ہے۔ انڈیا میں روایت رہی ہے کہ فوجی سربراہ سیاسی معاملات پر بیان نہیں دیتے اور حکومت کے امور سے دور رہتے ہیں۔
آرمی چیف کے بیان پر آل انڈیا اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’ان کا بیان مودی حکومت کو کم تر دکھاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اپنی ویب سائٹ پر لکھتے ہیں کہ ایمرجنسی (1975-77) میں وہ ایک طالب علم کے طور پر مظاہروں میں شریک ہوتے تھے۔ تو کیا فوجی سربراہ کے بیان کے مطابق وہ بھی غلط تھے۔‘
Asaduddin Owaisi, AIMIM on Army Chief General Bipin Rawat's remark: His statement undermines the Modi government. Our Prime Minister writes on his website that as a student he participated in protest during emergency. Then, according to Army Chief's statement that was also wrong. https://t.co/jWk14GJyek pic.twitter.com/r3NsxZbqH5
— ANI (@ANI) December 26, 2019
خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق فوجی سربراہ نے دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’رہنما وہ نہیں ہوتے جو لوگوں کو نامناسب سمت میں لے جائیں۔ ہم بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو دیکھ رہے ہیں جو مختلف شہروں میں ہجوم کو آتشزدگی اور تشدد پر ابھار رہے ہیں۔ یہ قیادت نہیں ہے۔‘
#WATCH Army Chief Gen Bipin Rawat: Leaders are not those who lead ppl in inappropriate direction. As we are witnessing in large number of universities&colleges,students the way they are leading masses&crowds to carry out arson&violence in cities & towns. This is not leadership. pic.twitter.com/iIM6fwntSC
— ANI (@ANI) December 26, 2019
اس کے جواب میں اسدالدین اویس نے لکھا: ’اپنے اختیارات کی حد کو جاننا ہی قیادت ہے۔ یہ عوام کی حکومت کی فوقیت کو سمجھنا ہے اور اس ادارے کی سالمیت کو محفوظ رکھنا ہے جس کی آپ سربراہی کر رہے ہیں۔‘
فوج کے سربراہ بپن راوت کے بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کی فوج کو دنیا میں اس لیے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ ’ان کا یہ بیان فوج کے غیر جانبدار کردار پر ضرب ہے۔‘
جنرل راوت 31 دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں لیکن اس سے قبل ان کا یہ بیان جہاں ان کے عہدے کے شایان شان نہیں ہے وہیں ان کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے اور حکومت شاید انہیں چیف آف ڈیفنس سٹاف بنا دے۔
دوسری جانب انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے بدستور جاری ہیں اور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹا جا رہا ہے جبکہ مغربی بنگال میں تو وزیراعلیٰ ممتا بینرجی خود اس قانون کی مخالفت کی قیادت کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
شہریت کے متنازع قانون پر’انڈیا تقسیم ہو گا‘Node ID: 448816
-
سپریم کورٹ کا متنازع قانون پر عمل درآمد روکنے سے انکارNode ID: 448871
-
انڈیا میں پرتشدد مظاہرے، 20 ہلاکNode ID: 449346
اس بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کی اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ آئین کے مختلف آرٹیکل کے مخالف ہے اور یہ انڈیا کی سیکولر روح کے منافی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتاہے اور اس بل میں مذہب کی بنیاد پر واضح امتیاز نظر آتا ہے اور یہ انڈیا کی سب سے بڑی اقلیتی برادری مسلمانوں کے خلاف ہے۔
بی جے پی حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر چند کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ دنوں رام لیلا میدان میں کہا کہ یہ قانون کسی بھی شہری کے خلاف نہیں ہے تاہم لوگ ان کی بات کو تسلیم کرنے کے تیار نہیں ہیں۔
دوسری جانب آج وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ کانگریس پارٹی کی قیادت میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ جو دہلی میں بدامنی کے لیے ذمہ دار ہے اس کو سزا دینے کا وقت آ گیا ہے۔
-
انڈین خبروں کے لیے ’’اردو نیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں