پاکستان کی قومی اسمبلی میں آرمی چیف اور دیگر سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ترمیمی بل منظور کرلیا گیا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق وزیر دفاع پرویز خٹک پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی آرڈینیس 1961میں ترمیم کے لیے بل پیش کیا۔
قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو پیش کرنے سے قبل وزیراعظم کی زیرصدارت حکومتی اتحادی پارٹیوں کا اجلاس ہوا جس میں ارکان کو ترمیمی بل کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
اس اجلاس کے بعد حکومتی ارکان وزیردفاع پرویز خٹک کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماوں سے بلاول بھٹو زرداری کے چیمبر میں جا کر ملے اور ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے کی درخواست کی۔
ملاقات میں پیپلز پارٹی کی شیری رحمن، راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر شریک ہوئے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس شروع راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس میں پارٹی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان شریک ہوئے اور آرمی ایکٹ میں ترامیم سمیت قانون سازی کے حکومتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔
اس سے قبل پیر کو فوجی سربراہاں کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی تھی۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا جہاں اس کی منظوری دے دی گئی۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن نے گزشتہ جمعرات کو آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی غیرمشروط حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے مطابق اس اجلاس میں آرمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلہ پر پارٹی میں بھی تنقید کی گئی ہے۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعت جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے فوج کی مدت ملازمت میں توسیع کی قانون سازی پر مخالفت اور بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جعلی اسمبلی کو ایسا قانون پاس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، یہ مسئلہ اہم نوعیت کا ہے جس میں عوام کا مینڈیٹ چوری کرکے بنائی اسمبلی کو قانون سازی کا حق نہیں دے سکتے۔‘
گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا ہے کہ ان کی جماعت جمہوری قانون سازی کو مثبت طریقے سے کرنا چاہتی ہے۔ ’کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں، جتنی اہم قانون سازی ہے، اتنا ہی اہم ہمارے لیے جمہوری عمل کی پاسداری ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔