Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوتے صاف کرنے کا راستہ کون سا؟

سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خلاف نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کیا تھا(فوٹو:اے ایف پی)
ووٹ کو عزت دو یا بوٹ کو، سوشل میڈیا صارفین کی یہ بحث تو گذشتہ روز سے ہی جاری ہے مگر موقعے کی مناسبت سے اب اس ٹرینڈ میں سامنے آنے والی ویڈیوز بھی خاصی دلچسپ ہیں اور وائرل ہوتی نظر آرہی ہیں.
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے 17 جولائی 2019 کو امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں پارٹی قیادت سے متعلق اہم فیصلوں اور موجودہ حکومت کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ 
 انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز سے ان کی ذاتی جدوجہد کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آسان راستہ مجھے بھی آتا ہے اس میں صرف ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں اس میں صرف آپ کو اپنی عزت نفس کی قربانی دے کر جوتے صاف کرنے پڑتے ہیں۔
انٹرویو کا یہ حصہ سوشل میڈیا پر آرمی ایکٹ میں ترمیم کیے جانے والے تمام ٹرینڈز میں شیئر کیا جا رہا ہے۔ جس پر سوشل میڈیا صارفین اپنی رائے دے رہے ہیں۔
ٹوئٹر صارف فرخ لودھی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن)کی جانب سے آرمی ایکٹ ترمیم کے حمایت کرنے پر میں اس فیصلے کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔

ایک اور صارف عبدالرحمان ٹوانہ نے لکھا کہ یہ (ن) لیگ کے ووٹرز کے لیے شرمندگی کا مقام ہے جو ووٹ کو عزت دو کے  جھنڈے تلے جھوٹے لوگوں کی پیروی کرتے رہے ہیں۔  
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو کے بعد مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی ایک اور ویڈیو بھی خاصی مشہور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جس میں رپورٹر نے سوال کیا کہ ’آپ کو کیا لگتا ہے ڈان لیکس کی وجہ سے آپ لوگوں کو اچھی نہیں لگتی اور لوگوں کو آپ پر اتنا غصہ کیوں ہے؟‘
جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کہتی ہیں کہ ’میں جوتے پالش نہیں کرتی اور میں اس کو برا سمجھتی ہوں شاید اس لیے۔‘
مینہ گبینہ کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں جو آرمی ایکٹ ترمیم کو فوری طور پر مسترد نہیں کر رہی ہیں آپ ان لوگوں کی آواز کی نمائندگی نہیں کرتے جن کا دعویٰ آپ آج تک کرتے آئے ہیں۔
ماہا نظامی کا کہنا تھا کہ لگتا ہے اس قوم پر بوٹوں کی بادشاہی دہاٸیوں تک نہیں بلکہ صدیوں تک رہے گی۔
سلیم صافی نے اس صورتحال کو اقبال کے شعر سے قلم بند کرنے کی کوشش کی۔
اقبال سے معذرت کے ساتھ:
خان و مولانا و شریف و بھٹو ایک ہوئے
 اس کے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
کئی ٹوئٹر صارفین نے کسی مخصوص جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائے بغیر بھی اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔
بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ احکامات جاری ہو گئے ہیں۔ ٹیلیفون کالز کی گئیں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے وفاداری کا امتحان لولی پاپ کے بدلے پاس کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں۔ 
ثومیہ عطا کا کہنا تھا کہ اب سیاستدان کس منہ سے ججز سے شکوہ کریں گے کہ ججز ہمیشہ جنرلز کو ایکسٹینشن دے دیتے ہیں۔ فرق صرف آئینی اور غیر آئینی کا ہے باقی بندہ وہی ہے طاقت کا نشہ وہی ہے اقتدار کا طول بھی وہی ہے۔

 

شیئر: