پاکستان میں فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی جہاں بڑی سیاسی جماعتیں حمایت کر رہی ہیں وہیں بعض سیاسی جماعتوں اور ارکان پارلیمنٹ نے قانون سازی کے عمل میں حصہ نہ لینے یا اس ترمیم کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جمعے کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان کی جماعت آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ حکومت جعلی ہے اور موجودہ اسمبلی کو ایسا قانون منظور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ن لیگ کو آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کرنے سے قبل اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
آرمی ایکٹ: نواز شریف کی حمایتNode ID: 451071
-
قائمہ کمیٹی دفاع نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دیNode ID: 451166
-
قومی اسمبلی کا اجلاس اور بجھی بجھی مسلم لیگ نوازNode ID: 451191
مولانا فضل الرحمان کا کہنا کہ حکومتی اقدامات فوج کو متنازع بنا رہے ہیں اور ان کی جماعت کے آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ووٹنگ میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرے گی۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے قومی اسمبلی میں 15 ارکان ہیں جو متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ جے یو آئی ف کے سینیٹ میں چار ارکان ہیں۔
ادھر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی جماعت آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت نہیں کرے گی۔
جماعت اسلامی کے سینیٹ میں دو ارکان ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی جماعت اسلامی کی جانب سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ کسی صورت آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔ بعد ازاں انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’میں نے نہ کبھی پہلے ایسے اقدامات کی حمایت کی جو ملک میں جمہوری جدوجہد کو کسی بھی طرح نقصان پہنچائیں اور نہ کبھی آئندہ کروں گا۔‘
نیشنل پارٹی کے سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ وہ نہ صرف اس ترمیمی بل کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ اس کی مخالفت بھی کریں گے اور دوسری جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عثمان کاکڑ نے بتایا کہ سینیٹ میں ان کی پارٹی کے چار ارکان ہیں۔
واضح رہے کہ جمعے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کو قائمہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے منظور کیا جس کے بعد سنیچر کو یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے کے بعد ترمیمی بل کو صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا۔ ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی حکومت کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے لیے چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کے لیے کہا تھا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں