اس وقت عراق میں امریکہ کے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی وزیر دفاع نے عراق سے امریکی فوج کے انخلا کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا وضاحتی بیان برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز اور دیگر میڈیا کی خبروں پر آیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج کے ایک خط میں عراقی حکام کو بتایا گیا ہے کہ ملک سے انخلا کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے پینٹاگون میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراق سے نکلنے پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
جب ان سے خط کے بارے میں پوچھا گیا تو عراق سے انخلا کے بارے میں انہوں نے کہا کہ نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا ہے اور میں اس خط کے بارے میں نہیں جانتا اور ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کہاں سے آیا اور یہ کس کے بارے میں ہے۔ لیکن عراق سے نکلنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
ایران کے امریکی فوج کے خطے سے انخلا کے مطالبے نے اتوار کو زور پکڑا جب عراقی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام غیر ملکی افواج کے ملک سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت عراق میں امریکہ کے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ امریکی فوج کے عراق سے نکلنے کے بارے میں خبریں ایک ایسے وقت سامنے آئیں ہیں جب صدر ٹرمپ کی ہدایت پر امریکی فوج نے گذشتہ ہفتے ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے سے امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کو آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسرے بڑے اہم شخصیت مانا جاتا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد 80 سالہ کامنہ ای نے لاکھوں ایرانیوں کے ساتھ تہران کی سڑکوں پر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا۔