پاکستان میں سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون کچھ عرصہ پہلے تک ’مجھے کیوں نکالا‘ جیسے انتقامی سیاست کے بیانات کی وجہ سے خبروں میں تھی لیکن آج کل یہ جماعت قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے اپنے بارے میں ”بوٹ کو عزت دو‘ کا تاثر قائم ہونے پر دفاعی پوزیشن پر ہے۔
ان دو ایکسٹریمز کی کہانی بالکل فارمولا فلم کی طرح ہے جس میں فلم بینوں کی دلچسپی کے لیے سب کچھ ہوتا ہے لیکن یہ فلم چل نہیں پاتی کیونکہ ڈائریکٹر فلم کے کلائمکس سےانصاف نہیں کر پاتا اور فلم بری طرح سے پٹ جاتی ہے۔
حکمران جماعت کے قائد نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہو گئے تو انھوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے ہیرو کی طرح پیش کیا جس کے ساتھ نوے کی دہائی سے ظلم و زیادتی ہو رہی تھی اور اب بقول ان کے کچھ نہیں ملا تو معمولی اقامے پر انھیں سزا دی گئی۔
اسی بیانیے کے ساتھ انھوں نے اپنے چند قریبی ساتھیوں کی جانب سے متنبہ کرنے کے باوجود جی ٹی روڑ پر لانگ مارچ کرنے کی ٹھانی اور قصبوں، شہروں میں جگہ جگہ تقاریر میں مجھے کیوں نکلا کا نعرہ لگایا اور قصورواروں کو خلائی مخلوق اور محکمۂ زراعت مخاطب کر کے بار بار کہا آخر میرا قصور کیا تھا؟
حالات بدلے نہ نواز شریف کے لہجے میں نرمی آئی اور اسی دوران لندن سے اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر وطن واپس لوٹے تو لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی جیل منتقل کر دیے گئے جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف استقبالی جلوس کے ساتھ بیچ راستے ہی واپس گھر کو لوٹ گئے۔
سزا معطلی کے بعد نواز شریف اور ان کی بیٹی جیل سے عدالتی حکم پر رہا ہوتے ہیں تو عوام ایک بار پھر سے اپنے لیڈر کی وہ ہی شعلہ بیانی کے منتظر تھے جس کا وہ نظارہ جی ٹی روڑ پر کر چکے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور ہر سوال کا جواب خاموشی ہی ٹھہری۔
خاموشی اس وقت ٹوٹی جب نواز شریف پاناما کیس سے جڑے ایک دوسرے ریفرنس میں اپنے آبائی شہر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل چلے گئے تو ان کی بیٹی مریم نواز زیادہ شدت سے متحرک ہوئیں جس میں حکومت اور اس کے حامیوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے جس میں وہ اپنے والد کو العزیزیہ ریفرنس میں قید کی سزا سنانے والے احستاب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک مبینہ ویڈیو بھی میڈیا میں لے آئیں۔
اس مبینہ ویڈیو سے بھی بات نہیں بنی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مریم نواز نے پارٹی پر گرفت مضبوط کرنی شروع کر دی جس کے بعد انہیں اس کی وضاحت بھی دینا پڑی کہ اپنے چچا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحتی رویے کے حامی شہباز شریف سے کوئی اختلافات نہیں۔
مریم نواز کا رویہ جارحانہ ہوتا چلا گیا اور مقامی ذرائع ابلاغ میں ان کے لیے میدان تنگ ہوتا چلا گیا جس میں وائس آف امریکہ کے ساتھ جیل جانے سے پہلے اپنے آخری انٹرویو میں یہ الفاظ کافی وائرل ہوئے کہ اقتدار کے لیے آسان راستے کے لیے اپنی عزت نفس کی قربانی دے کر جوتے صاف کرنے پڑتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کی حکومت مسلسل بیانات میں کسی کو این آر او یعنی ریلیف کسی صورت نہ دینے کے بیانیے پر قائم رہتی ہے۔
اس کے چند دن بعد مریم نواز دوبارہ نیب کی تحویل میں چلی جاتی ہیں اور پھر سے خاموشی چھا جاتی ہے لیکن جیسا کہتے ہیں کہ زیادہ خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور ہوا بھی ایسے جب مولانا فضل الرحمان اسلام آباد حکومت مخالف مارچ کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تو دوسری جانب نواز شریف نیب کی تحقیقات کے دوران بیمار ہو گئے اور انھیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا اور اس کے بعد عدالت سے ضمانت اور بعد میں ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعد اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ لندن روانہ ہو گئے جبکہ مولانا فضل الرحمان اس سے کافی دن پہلے ہی یہ کہتے ہوئے شہر اقتدار کو خالی کر چکے تھے کہ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹے ہیں۔
نواز شریف کے لندن جاتے ہی مریم نواز نے بھی لندن جانے کے لیے یہ کہتے ہوئے عدالت سے رجوع کر لیا کہ سیاست ہوتی رہے گی لیکن اس وقت وہ اپنے بیمار والد کے ساتھ لندن میں رہنا چاہتی ہیں اور اس کے بعد سے ان کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔
اسی دوران کہانی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ آتا ہے جو بظاہر چند ماہ پہلے اسی وقت حل ہو جانا چاہیے تھا جب وزیراعظم نے ان کی مدت میں تین برس کی توسیع کی تھی لیکن پھر بھی نظریں ان کی مدت ملازمت ختم ہونے اور توسیع شروع ہونے پر تھیں۔
سب ٹھیک ہی تھا کہ ایک پٹیشنر سپریم کورٹ جاتے ہیں اور تین دن کی سماعت کے بعد آرمی چیف کی مدت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع کا فیصلہ دیتے ہوئے معاملہ پارلیمان پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اسے حسن اتفاق کہیں کہ حکومت آرمی چیف کے معاملے کو پارلیمان میں لے جانے سے پہلے احتساب کے قوانین میں ترمیم کر کے اس ادارے کو ’فرینڈلی‘ بناتی ہے تو دوسری جانب پارلیمان میں موجود تقریباً تمام جماعتیں توسیع کے قانون میں ترامیم کی حمایت کر دیتی ہیں جن میں اس کہانی کے مرکزی کردار نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ بھی اپنے قائد کے احکامات پر ترامیم کو منظور کرانے میں آگے آگے تھی۔
کہانی کا یہ اختتام خاص کر مسلم لیگ نون کے ان کارکنوں کو بالکل پسند نہیں آیا جو اس انتظار میں تھے کہ ان کا قائد موقع ملتے ہی اٹھ کھڑا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور اب مسلم لیگ نون کی پاکستان میں موجود قیادت بوٹ کو عزت دو کے نام پر تنقید کا نیم دلی سے دفاع اس موقف پر کر رہی ہے کہ لندن سے نواز شریف کے یہ احکامات تھے جبکہ دوسری جانب پاکستان میں موجود ان کی سیاسی جانشین مریم نواز کی جانب سے پورے معاملے پر کوئی بیان نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر وہ پکوان تیار کرنے کی تراکیب ضرور شیئر کر رہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ پک چکا ہے یا اس کے قریب ہے۔
لیکن اس کہانی میں زیادتی شاید ان کارکنوں کے ساتھ ہو گئی جن کو توقع تھی کہ ان کا ہیرو آخر میں کھڑا ہو گا، اپنا بدلہ لے گا اور وہ تالیاں بجاتے ہوئے ہال سے باہر نکلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بلکہ ہاتھ ملتے ہوئے باہر نکلے لیکن شاید ڈائریکٹر نے ان کے لیے ایک اور فلم تیار کر رکھی ہو جس میں ان کے دلچسپی کا خاصا مواد ہو۔