اہم سوال اس یو ٹرن کے بعد کے حالات کا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
2011 کا یہ واقعہ کل کی بات لگتی ہے جب امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو لڑکوں فیضان اور فہیم کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور بھاگنے کی کوشش میں تیسرے شخص عباد الرحمان کو گاڑی تلے روند ڈالا۔
دن دہاڑے، بھرے بازار میں ہونے والی اس واردات نے میڈیا میں طلاطم برپا کر دیا۔ اس وقت مجھے فیلڈ میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا اور ہم جیسے نو وارد لوگوں کے جذبات کام پر حاوی ہو جایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی شدید غصہ تھا کہ جرات کیسے ہوئی اس غیر ملکی کی کہ اس دیدہ دلیری سے میرے ہم وطنوں کی جان لے لی۔
جس ادارے سے میں منسلک تھی وہاں ایک پروگرام کی میزبانی کے ساتھ ساتھ نیوز ڈیسک کے لیے رپورٹنگ بھی کیا کرتی تھی۔ میرے ذمہ فہیم کے گھر والوں کے انٹرویو کی ڈیوٹی لگائی گئی اور یوں میں لاہور سے کچھ دور ایک کچی آبادی میں فہیم کی والدہ اور بیوہ کو انٹرویو کر نے گئی۔
فہیم کی بیوہ کے انٹر ویو کے بعد جب جب اس کی والدہ کے انٹر ویو کی باری آئی تو اس دکھیاری نے زار و قطار روتے ہوئے ایک ہی بات کہی کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے بیٹے کے خون کا سودا نہیں ہونے دے گی۔
اسی رات فہیم کی والدہ کا انٹرویو چلا، قوم کے جذبات مزید بھڑکے اور اس کے دو دن بعد فہیم کے خاندان نے دیت کی رقم وصول کر کے ریمنڈ ڈیویس کو معاف کر دیا۔ اور یوں جلد ہی مجھے اس بات کا ادراک ہوگیا کہ پس پردہ ہمیشہ ایک گرینڈ سکرپٹ ہوا کرتا ہے جس کے ہم سب کردار ہوتے ہیں ۔۔۔ جو کبھی جوش و خروش سے چاہتے ہوئے، کبھی بادلنخواستہ اور کبھی بے خبری میں غیر دانستہ طور پر اپنا اپنا رول نبھا جاتے ہیں۔
جب سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے آرمی چیف کے عہدے کے حوالے سے قانون سازی کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے سوشل میڈیا پر ان کے سیاسی اور نظریاتی پیروکاروں کے شکستہ دل ردعمل نے مجھے اپنے اس تجربے کی یاد دلا دی۔ سویلین بالادستی کے متوالوں میں سے کچھ نے بھر پور جوش و خروش سے اپنی رضامندی سے اور کچھ نے نادانستہ طور پر نظریاتی جھکاؤ کے باعث دونوں سیاسی جماعتوں سے شاید کچھ زیادہ ہی امیدیں لگا لیں تھیں۔
شاید کسی حد تک زیادتی بھی ہے کہ تمام تر لعنت ملامت کا نشانہ سمجھوتہ کرنے والی یہ دونوں جماعتیں بن رہی ہیں اور کہیں یہ بات پس پردہ رہ گئی ہے کہ وہ کونسے حالات تھے جو ان جماعتوں کو اس نہج تک لے آئے ہیں۔
پاکستان میں سیاست کرکٹ کی طرح بیک وقت مخالفین کے چھکے چھڑانے اور شطرنج کی طرح چالیں چلنے کا نام ہے۔ اس میں جارحیت اور مصلحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں بینظیر بھٹو کی واپسی ہو یا 2007 میں نواز شریف اور بینظیر دونوں کی واپسی، تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو واپسی کا کوئی نہ کوئی راستہ کھلا رکھنا پڑتا ہے۔
ایسے معاملات میں سمجوتہ نظریات پر نہیں حالات پر کرنا پڑتا ہے اور اس بات کے سب شاہد ہیں کہ سیاسی جماعتیں اسی حکمت عملی سے کئی کئی جنم لیتی ہیں۔ اگر نواز شریف 40 سال سے پاکستانی سیاست کا مرکزی کردار ہیں تو اس کی وجہ کئی اہم سمجھوتے ہیں جو وقتی طور پرسرنڈر شمار کیے گئے مگر وقت نے انہیں حکمت عملی ثابت کیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ پس پردہ طاقتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔
اب یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ نواز اپنے سیاسی دوراہے پر دوبارہ مفاہمت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کی ڈگر پر چل نکلی ہے حالانکہ سیاسی تاریخ نے یہی ثابت کیا ہے کہ ’ایک ہی صفحہ یعنی سیم پیج‘ ایک سراب ہے۔ مگر وقت نے ان کو یہی سکھایا ہے کہ مشکل حالات میں کیا گیا سمجھوتہ اچھے حالات میں اقتدار کا پیش خیمہ بن جایا کرتا ہے۔ اور پھر ہر لڑائی کا اپنا وقت، طریقہ اور کامیابی کا پیمانہ ہوا کرتا ہے۔ سیاسی محاذ پر سروائی ول یا بچاؤ ہی اصل کامیابی ہے۔
موجودہ حالات میں وہ سیاسی جماعتیں جن کا کچھ عرصے پہلے تک مستقبل جیل کی سلاخیں تھا اگر آج دوبارہ متبادل قیادت کے طور پر ابھری ہیں تو اس کا سبب یہی کبھی جارحیت اور کبھی مصلحت کی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی میں اصل بحث پارٹیوں کے باہر سے زیادہ پارٹیوں کے اندر ہے۔ نون لیگ اس اندرونی کشمکش کا زیادہ شکار نظر آتی ہے۔
نون لیگ کے اندر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے سرخیل نواز شریف اور مریم نواز خاموش اور سیاسی سرگرمیوں سے وقتی طور پر کنارہ کش ہیں اور خصوصاً مریم نواز کی طرف کسی حد تک ن لیگ کے موجودہ عمل سے ناخوشی کے اشارے بھی ملے ہیں۔ مگر قیادت میں مجموعی طور پرڈسپلن کی پانبدی نظر آ رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ’یو ٹرن‘ سے ن لیگ کو کیا حاصل ہوگا۔ ن لیگ کے با خبر حلقوں سے بات کریں تو اس سارے بندوبست کا ایک سنگل پوائنٹ ایجنڈا ہے اور وہ ہے ’ایکسٹینشن لو، الیکشن دو‘ ۔
اس قسم کے ایجنڈے پر ظاہری سے زیادہ پس پردہ انتظامات ہی ہوا کرتے ہیں اس لیے اگلے چند ماہ میں اگر سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہویں تو وہ آج کے فیصلوں کا ثمر ہوں گی۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ن لیگ کی دو رخی سیاست کی کشکمش، یعنی ایک دھڑے کا نظریاتی اور دوسرے کا عملی سیاست کا دعوے دار ہونے کا، پارٹی کو نقصان نہیں فائدہ ہی ہے۔ ایک طرف کارکنوں کو بھی مطمئن رکھا جاتا ہے اور دوسری طرف اصل طاقتوں سے مراسم بھی جاری رہتے ہیں ۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سپورٹ ہی مہیا کرتے ہیں ۔ جیسی رائے عامہ ویسا ہی رخ پیش کر دیا جاتا ہے۔
ان حالات میں زیادہ جذباتیت سوشل میڈیا پہ متحرک کارکنان یا پھر بیانیے سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں کی طرف سے نظر آ رہی ہے۔ صورتحال کو جذبات سے پرے ہو کر دیکھا جائے تو اسے tactical retreat کہا جا سکتا ہے۔ قیادت کارکنان کی توقعات اور امنگوں کو مدنظر تو رکھتی ہے لیکن انہیں حقیقت پسندانہ فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دیتی۔
اگلا اہم سوال اس یو ٹرن کے بعد کے حالات کا ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی سیاست اور حکومت دونوں پر گرفت کمزور سے کمزور تر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ وہ بھی ‘larger scheme of things’ کا شکار نظر آتے ہیں ۔
اگلے مرحلے میں نئے مفاہمتی ماحول میں نیب آرڈیننس پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے گا جس پر پہلے ہی تمام پارٹیوں کی رضامندی بلکہ منشا ہے۔ ایک طرف نیب قانون میں تبدیلیوں کے بعد احتساب کو بریک لگ جائے گی اور دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ’سیم پیج‘ پر اب اپوزیشن نے بھی وقتی طور پر جگہ بنا لی ہے۔ ایک طرف سندھ کی صوبائی حکومت کے سر لٹکتی ہوئی احتساب کی تلوار ہٹ جائے گی دوسری طرف پنجاب میں ن لیگ کا کردار بڑھے گا۔ آنے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی اس کا اہم مرحلہ ہوں گے۔
رہی بات مریم نواز کی بیرون ملک روانگی کی تو اب اس کو مزید روکنا حکومت کے شاید بس کی بات نہ ہو۔ سال 2020 کے شروع سے ہی اپوزیشن نے اپنی مشکلات حکومت کو منتقل کر دی ہیں اور ایک طرف چین اور دوسری طرف بے چینی کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں