پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام اتوار کو بنوں میں جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں قبائلی اضلاع کے ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے دیگر رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
پی ٹی ایم کے مرکزی رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر کی گذشتہ برس ستمبر میں جیل سے رہائی کے بعد اتوار کو یہ پہلا موقع تھا کہ اس تنظیم کی جانب سے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا۔
پی ٹی ایم کے دونوں مذکورہ رہنماؤں کو گذشتہ برس مئی میں شمالی وزیرستان کی خار قمر سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد یہ دونوں اراکین اسمبلی لگ بھگ چار ماہ تک جیل میں رہے تھے۔
مزید پڑھیں
-
شمالی وزیرستان میں فوج سے جھڑپ کے متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلانNode ID: 421826
-
محسن داوڑ اور علی وزیر پر سفری پابندی عائد کرنے کی منظوریNode ID: 424661
-
علی وزیر، محسن داوڑ کی ضمانت منظور، رہائی کا حکمNode ID: 434191
اس کیس میں پشاور ہائی کورٹ کے بنوں بینچ نے گذشتہ برس 18 ستمبر کو دونوں رہنماؤں کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
کیا پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک بار پھر تحریک کا آغاز کیا ہے؟
اس جلسے کے حوالے سے رکن اسمبلی علی وزیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے اور بجائے ہمارے تحفظات دور کرنے ہر ہم پر دباؤ ڈالا گیا۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے ایک بار پھر جلسوں کا آغاز کیا ہے اور ہم اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں جو اقدامات کیے گئے اس حوالے سے حقائق جاننے کے لیے ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ جھوٹ اور سچ سامنے آسکے۔‘
انہوں نے حکومت کی جانب سے ماضی میں قائم کی گئی مذاکراتی کمیٹی کے قائم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی سطح کا ایک کمیشن بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں بیرون ممالک کے وفد شامل ہوں اور قبائلی اضلاع کے حقائق کو سامنے لا سکیں۔‘
ان کے بقول ’حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے تاحال کچھ نہیں کیا بلکہ مذاکرات کے دوران ہمیں گرفتار کیا گیا اور مقدمے قائم کیے، اس پر تو کمیٹی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘
علی وزیر نے مزید کہا کہ ’ہمارے مطالبات وہی ہیں جو ہم پہلے بھی سامنے لاچکے ہیں لیکن ان مطالبات پر اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما عبد اللہ ننگیال کا کہنا ہے کہ ’جب تک ہمارے تحفظات دور نہیں کیے جاتے ہم اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس جلسے کا ایک مقصد تمام پشتون قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام قبائلی مشیران کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے اپنے حقوق کی آواز اٹھائیں۔‘
دوسری طرف بنوں جلسے کے بعد ٹوئٹر پر ’پشتون لانگ مارچ ٹو بنوں‘ #PashtunLongMarch2Bannu اور ’نیشن ریجیکٹ پی ٹی ایم‘ #nation_reject_ptm کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
عمران خان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’یاد رکھیں کہ عوام کی توجہ بنوں لانگ مارچ سے ہٹانے کے لیے ڈی سی بنوں نے آج فٹ بال میچ، کبڈی، جمناسٹک اور اتن ڈانس کا اہتمام کر رکھا تھا لیکن یوں لگتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان آدمی اُس طرف راغب نہیں ہوئے۔‘
Just remember that DC Bannu has arranged for a soccer match, Kabadi match, Gymnastics and Attan today which was assumed to divert crowd away from #PashtunLongMarch2Bannu, but all of that seems to have not convinced this lot of mostly young men. pic.twitter.com/YtdMIwBXuV
— Imran Khan (@iopyne) January 12, 2020