اپیل کورٹ کے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا (فوٹو الامارات الیوم)
متحدہ عرب امارات کی اعلیٰ وفاقی عدالت نے سوتن لانے پر طلاق کا مطالبہ مسترد کردیا اور اپیل کورٹ کے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا جس میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرادی گئی تھی۔
الامارات الیوم کے مطابق اعلیٰ وفاقی عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیاکہ اپیل کورٹ نے سوتن لانے پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ خلاف شریعت اور خلاف قانون کیا تھا۔ عدالت اس بات کی مجاز نہیں تھی کہ محض سوتن لانے پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ جاری کردے۔
جب تک پہلی بیوی یہ نہ ثابت کردے کہ اسے سوتن لانے سے حقیقی نقصان کیا ہورہا ہے تب تک علیحدگی کا مطالبہ حق بجانب نہیں ہوگا۔
اعلیٰ وفاقی عدالت نے اپنے فیصلے میں نکتہ اٹھایا ہے کہ مدعی خاتون نے شوہر سے علیحدگی کے مطالبے کے باوجود ججوں کے سامنے اپنا اعتراف بھی ریکارڈ کرا رکھا ہے کہ سوتن لانے کے باوجود اس کا شوہر اس سے اچھا سلوک کررہا ہے او راس نے کوئی بدسلوکی نہیں کی۔ لہذا اپیل کورٹ نے سوتن لانے کو علیحدگی کی بنیاد بنا کر قانون اور شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایک خاتون نے اپیل کورٹ میں مقدمہ دائر کیاتھاکہ میں اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں کیونکہ وہ میرے اوپر سوتن لے آیا ہے اور مجھے اس کے چار بچوں کی پرورش کے اخراجات بھی درکار ہیں۔
خاتون نے مہر، نان نفقے اور اولاد کے خرچے کا بھی مطالبہ پیش کیا تھا۔ مدعی خاتون کا کہنا تھا کہ میرے شوہر نے سوتن لاکر مجھے نقصان پہنچایا ہے اسی وجہ سے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہوں۔
عدالت نے شوہر بیوی دونوں کو مصالحت کا مشورہ دیا تھا۔ شوہر نے قبول کرلیا تھا جبکہ بیوی نے مسترد کردیا تھا۔ عدالت نے بیوی کو صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ دیکھ کرعدالت نے دو ثالث مقرر کیے اور انہیں مصالحت کرانے کی ذمہ داری تفویض کی۔ دونوں نے رپورٹ پیش کی کہ مشترکہ غلطی کی وجہ سے صلح مشکل ہے اور بیوی طلاق پر بضد ہے۔
پرائمری کورٹ نے میاں بیوی میں علیحدگی کا فیصلہ دے دیا تھا اور ساتھ ہی مہر کی باقیماندہ رقم ادا کرنے اور چاروں بچوں کی پرورش کے اخراجات دینے کا حکم بھی جاری کردیا تھا۔
عدالت نے شوہرکو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ بچوں کی ماں کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کرے جہاں وہ اس کے بچوں کی درست طریقے سے دیکھ بھال کرسکے۔ عدالت نے خادمہ کی تنخواہ بھی مقرر کردی تھی۔
اپیل کورٹ نے پرائمری کورٹ کے فیصلے میںترمیم کردی تھی۔ نان نفقے کے حوالے سے ردوبدل کیا گیا تھا تاہم خاوند نے اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ وفاقی عدالت سے رجوع کرکے کہا تھا کہ مجھے اپیل کورٹ کا فیصلہ منظور نہیں۔