اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’قابض امریکہ کا ایک طیارہ غزنی میں گر کر تباہ ہو گیا ہے اور اس میں موجود عملے کے تمام افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔‘
اس سے قبل برطانوی خبر رساں اداے روئٹرز نے کہا تھا کہ طیارے کے ملبے کی تلاش کے لیے افغان نیشنل آرمی افغان کے دستے صوبہ غزنی کے ضلع دیہ یک کی جانب روانہ ہو گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ’امریکی فورسز نے بھی طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں طیارے کے گرنے کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہیں۔‘
قبل ازین روئٹرز نے صوبہ غزنی کے گورنر کے ترجمان عارف نوری کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’آریانا ایئر لائنز کا ایک بوئنگ طیارہ غزنی کے ضلع دیہ یک میں سادو خیل کے علاقے میں مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر دس منٹ پر گر کر تباہ ہو گیا ہے۔‘
ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ فوجی یا مسافر طیارہ تھا اور اس میں کتنے لوگ سوار تھے۔‘
تاہم دوسری جانب افغانستان کی سرکاری فضائی کمپنی آریانا افغان ایئر لائنز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان کے کسی طیارے کو حادثہ پیش نہیں آیا اور ان کے تمام طیارے محفوظ ہیں۔
جہاز کے گرنے کے حوالے سے غزنی کے گورنر کے ترجمان عارف نوری نے اے ایف پی کو بتایا کہ طیارے میں آگ لگی ہوئی ہے اور دیہات کے لوگ اس کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صوبے کے پولیس کے ترجمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جہاز حادثے کا شکار ہوا ہے تاہم ساتھ ہی وضاحت بھی کی ہے کہ جہاز کی شناخت کے حوالے سے ابھی تک معلومات نہیں ہیں۔
افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے دوران جہازوں خصوصاً ہیلی کاپٹروں کا نامناسب موسمی حالات کی وجہ سے حادثے کا شکار ہونا عام ہے، یہی وجہ ہے کہ ہیلی کاپٹر اپنی پروازیں محدود رکھتے ہیں کیونکہ شدت پسند انہیں نشانہ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
2010 میں بھی ایک مسافر طیارہ کابل سے بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہوا تھا جس میں عملے کے چھ افراد کے علاوہ 38 مسافر سوار تھے۔
طیارہ کابل سے قندوز جا رہا تھا جو خراب موسم کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوا تھا۔
آریانا افغان ایئر لائنز افغانستان کی سب سے پرانی اور بڑی سرکاری فضائی کمپنی ہے جس کا آغاز 1955 میں ہوا تھا اور اس کا ہیڈ آفس کابل میں ہے۔