جماعت الدعوۃ پاکستان کے سربراہ حافظ محمد سعید کا تعلق اس خاندان سے ہے جو تقسیم ہندوستان کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ہجرت کے دوران ان کے خاندان کے 36 افراد مارے گئے تھے اور خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔
مزید پڑھیں
-
حافظ سعید کی تنظیم پر پابندی ،کالعدم تنظیموں کیخلاف آپریشن ہوگاNode ID: 396031
-
جیش، جماعت دعوۃ پر پھرپابندی مگراس بارمختلف کیا ہے؟Node ID: 401496
-
ٹرمپ کا حافظ سعید کی گرفتاری پر خوشی کا اظہارNode ID: 426016
قیام پاکستان کے ایک سال بعد یعنی 1948 میں حافظ محمد سعید سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ بچپن سرگودھا میں ہی گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گاؤں کے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف عالم دین حافظ عبداللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے۔ ان کا تعلق اہل حدیث مسلک سے تھا۔
حافظ سعید اپنی جواں عمری سے ہی کافی متحرک تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ان کی سوچ کا زاویہ بدلنے لگا۔ 1986 میں انھوں نے ایک ماہانہ میگزین ’الدعوۃ ‘کی اشاعت کا آغاز کیا، اسی وقت ’مرکز دعوۃ والارشاد ‘کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔
مرکز الدعوۃ کے زیراہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کھولے گئے۔ حافظ سعید نے زیادہ توجہ پنجاب کے دیہات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر مرکوز رکھی۔ انھوں نے اپنی سرگرمیوں کا محور لاہور کے نواح میں واقع مریدکے میں قائم مرکز طیبہ کو بنایا۔
اس دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک نے جنم لیا۔ حافظ سعید نے کشمیر میں جاری تحریک میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
90 کے عشرے میں ان کے پاس اتنی تعداد میں تربیت یافتہ نوجوان موجود تھے جن کے بل بوتے پرانہوں نے لشکر طیبہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے حافظ محمد سعید کی تنطیم لشکر طیبہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم عمل عسکری تنظیموں میں سے ایک موثر گروپ کے طور پر سامنے آئی۔ تنظیم کی زیادہ تر رکنیت پاکستانیوں کی تھی۔
یہ سلسلہ 10 برس چلتا رہا۔ اس دوران لشکر طیبہ کی عسکری کارروائیاں اتنی زیادہ تعداد میں ہونے لگیں کہ خود حافظ سعید اپنی اصل تنظیم جماعت الدعوۃ کے بجائے لشکر طیبہ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔
نائن الیون کو امریکہ میں ہونے والے حملوں نے پاکستان اور انڈیا میں ان تحریکوں کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا اور کچھ گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
لشکر طیبہ نے پاکستان میں تو کبھی دہشت گری کی کسی واردات میں حصہ نہیں لیا لیکن انڈیا میں ہونے والے بیشتر حملوں کا الزام لشکر طیبہ پر ہی لگایا جاتا تھا۔
ممبئی حملے ہوں یا کشمیر میں بڑی کارروائیاں، انڈین حکومت اور میڈیا لشکر طیبہ کو ہی مورد الزام ٹھہراتے۔ انڈیا نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کیا۔ اقوام متحدہ نے ان پر سفری اور مالیاتی پابندیاں بھی عائد کیں۔
امریکہ نے بھی ممبئی حملوں کے الزام میں حافظ سعید کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔
نومبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان سے لشکر طیبہ کی تنظیم ختم کر کے اس کے دفاتر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں منتقل کر دیے گئے۔
حافظ سعید نے خود کو ایک بار پھر مرکز الدعوۃ کے کاموں میں مصروف کر لیا لیکن اس تنظیم کا نام بدل کر ’جماعت الدعوۃ‘ رکھ دیا۔
2001 سے 2020 تک حافظ سعید کو متعدد مرتبہ حراست میں لیا گیا اور ان کو ان کے گھر یا سرکاری مقامات پر نظر بند بھی کیا گیا۔ وہ ہمیشہ عدالتوں کا رخ کرتے اور انھیں وہاں سے ریلیف مل جاتا۔
2008 میں جب جماعت الدعوة پر پابندی لگائی گئی تو ’فلاح انسانیت‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور یہ دکھایا گیا کہ یہ ایک فلاحی جماعت ہے اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس تنظیم کے تحت ایمبولینس سروس سمیت پاکستان میں سینکڑوں فلاحی منصوبے چل رہے ہیں۔ ملک میں آنے والی قدرتی آفات و حادثات میں یہ تنظیم کافی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔
جولائی 2019 میں محکمہ انسداد دہشت گردی نے انھیں لاہور سے گوجرانوالہ جاتے ہوئے گرفتار کیا۔ مسلسل سماعتوں کے بعد لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دو مقدمات میں انھیں مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا دی ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں