فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا بہانہ مل گیا ہے۔(فوٹو ڈیزائنر ایو)
کورونا وائرس کے انسداد کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں کے اعتراف میں اور وبا کو محدود رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے سعودی شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کی بڑی تعداد نے اپنی سوشل سرگرمیاں محدود کردی ہیں۔
ریاض سمیت جدہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، دمام اور الخبر کے علاوہ تمام بڑے شہروں میں آبادی کی بڑی تعداد نے خود کو گھروں تک محدود کر لیا ہے۔ سعودی شہریوں نے میل ملاپ اور تقریبات سے مکمل طور پر اجتناب کر رکھا ہے۔ یہی حال بعض غیرملکیوں کا بھی ہے۔
گھروں تک خود کو محدود رکھنے کے باعث بڑے شہروں کی سڑکیں ویران اور بازار سنسان ہوگئے ہیں۔ وزارت صحت نے شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو انتہائی ناگزیر حالت کے علاوہ باہر نہ جانے کی ہدایت کی ہے۔
ٹوئٹر صارفین نے ’گھرمیں رہو‘ ہیش ٹیگ جاری کیا ہے جو سعودی عرب میں ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔
وزارت تعلیم کے سابق ترجمان مبارک العصیمی نے کہا ہے کہ ’گھر میں رہنا قومی فریضہ بن گیا ہے۔ کورونا کے انسداد کے لیے حکومتی کوششیں اس وقت کامیاب ہوں گی جب پوری قوم اس کے ساتھ تعاون کرے گی‘۔
ایک شہری مبارک السلیمان نے کہا ہے کہ ’اگر تمہیں اپنی فکر نہیں تو کم سے کم اپنے بیوی بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کی فکر ہونی چاہئے۔ بہادری اس میں نہیں کہ کورونا کے خطرے سے بے پروا ہوکر باہر نکلا جائے بلکہ بہادری یہ ہے کہ خود کو وائرس سے بچایا جائے تاکہ اپنے عزیز بھی اس سے محفوظ رہیں ‘۔
معروف صحافی امجد طہ نے کہا ہے کہ ’بحران کے وقت سعودی عوام کا اتحاد ویکجہتی کا یہ مظہر اس بات کی دلیل ہے کہ عوام نہ صرف باخبر ہے بلکہ خطرات سے بھی آگاہ ہے ۔ یہ وہ مہذب قوم ہے جس کی مثالیں دنیا میں دی جاسکتی ہیں‘۔
محسن القرنی نے کہا ہے کہ ’گوکہ کرفیو کی نوبت نہیں آئے گی نہ ہی بحران بے قابو ہے مگر ہمارا قومی فریضہ ہے کہ کورونا کے انسداد کے لیے ہم خود کو محدود رکھیں تاکہ وائرس کا پھیلاو بھی محدود ہوجائے۔ یہ حکومتی کوششیں کا اعتراف ہے‘۔
اسماءالراجح نے کہا ہے کہ ’گھروں میں بیٹھنے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا بہانہ مل گیا ہے۔ اسے تنہائی اور بچوں کے ساتھ وقت گزاری کا موقع سمجھیں۔ گھر کی صفائی کریں، خراب چیزوں کو ٹھیک کریں، سب مل کے ٹی وی دیکھیں، کوئی فلم دیکھیں، کتابیں پڑھیں ، یہ مواقع کم ہی ملتے ہیں‘۔