Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کے خلاف فیس بک کیا کر رہی ہے؟

فیس بک میسنجر اور صحت کے اداروں کے اشتراک کے کورونا سے لڑا جا سکتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے لے لیے سماجی دوری کے اس دور میں فیس بک نے ویب ڈیولپرز کے ساتھ مل کر روابط کا ایسا نظام بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت صحت کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کا پیغام لوگوں تک آسانی سے پہنچایا جا سکے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیس بک میسنجر کے نائب صدر سٹین چڈنووسکی نے ایک بلاگ پوسٹ میں ایک عالمی پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تحت حکومتی صحت کے ادارے اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ڈیولپرز کے ساتھ مل کر فیس بک میسنجر کو اس طرح استعمال کریں گے کہ لوگوں تک درست معلومات پہنچا سکیں اور ان کے سوالات کا فوری جواب دے سکیں۔
مثال کے طور پر سوفٹ وئیر بنانے والے ادارے، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے لیے لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کا ایک خود کار نظام بنا سکتے ہیں تاکہ ایسے اداروں کا عملہ باقی مسائل پر کام کر سکے۔
فوری معلومات فراہم کرنے کے لیے ڈیولپرز ان اداروں کے سافٹ وئیر استعمال کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
فیس بک میسنجر کی انتظامیہ کے مطابق یونیسف اور حکومتِ پاکستان کی وزارتِ صحت پہلے ہی سے لوگوں کو کورونا وائرس پر تازہ ترین معلومت دینے کے لیے میسنجر کا استعمال کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، فیس بک کی ایپ واٹس ایپ نے بھی حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے انتباہ بھیجنے والا نظام متعارف کرایا ہے جس کے تحت کورونا سے متعلق لوگوں کے سوالات کے جواب ہی نہیں دیے جاتے بلکہ اس وائرس کے گرد گردش کرنے والی افواہوں کو بھی دور کیا جاتا ہے۔
یہ سروس انگریزی میں متعارف کروائی گئی ہے، تاہم جلد اسے عربی، چینی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی لانچ کیا جائے گا۔
واٹس ایپ کے ایک ارب سے زہادہ صارفین ہیں۔ اس نے کورونا وائرس سے متعلق افواہوں کی روک تھام کے لیے انٹرنیشنل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک نام کے ادارے کو 10 لاکھ ڈالر دیے ہیں۔
واٹس ایپ کے ترجمان کارل ووگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ہمارا ماننا ہے کہ وٹس ایپ سب سے اہم جو اقدام اٹھا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو براہ راست شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افسران سے رابطے میں لائے، جو انہیں کورونا وائرس سے متعلق اہم معلومات فراہم کر سکیں۔'
کورونا وائرس سے متعلق جہاں متعدد پلیٹ فارمز پر اہم معلومات فراہم کی جا رہی ہیں وہاں یہ شبہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں کچھ افواہیں بھی ہیں۔

شیئر: