انڈیا میں گذشتہ چار دن سے لاک ڈاؤن جاری ہے جو 14 اپریل تک جاری رہے گی۔ اس دوران انڈیا کے سرکاری ٹی وی چینل دور درشن نے اعلان کیا ہے کہ عوام کے مطالبے پر وہ اپنے زمانے کے معروف ٹی وی سیریلز ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ کی دوبارہ نشریات شروع کر رہا ہے۔
اس ضمن میں جہاں لوگ اس کی دوبارہ نشریات کے فیصلے کو سراہ رہے ہیں وہیں بہت سے لوگ اسے تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک طرف عوام سڑکوں پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف وزرا ’رامائن‘ اور ’مہا بھارت‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رامائن اور مہا بھارت ہندوؤں کی دو رزمیہ داستانوں پر مبنی ٹی وی سیریلز ہیں جو اپنے زمانے میں خاصے مقبول ہوئے تھے اور ان کی نشریات سے بہت سے لوگ ماضی کو یاد کرنے لگے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
لاک ڈاؤن سے قبل مزدوروں کے بارے میں نہیں سوچا گیاNode ID: 467751
-
'فاصلہ رکھیں': پولیس کی شہریوں پر کوڑوں کی برساتNode ID: 467806
-
صدر ٹرمپ کا نیویارک کو لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہNode ID: 467946
واٹس ایپ پر ایک پوسٹ مختلف ورژن کے ساتھ گشت کر رہی ہے جس میں بی جے پی کے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڑیکر کے ٹویٹ کے جواب میں کہا جا رہا ہے کہ کورونا کے زمانے میں عوام کا مطالبہ بہتر سہولیات، ماسک، سینیٹائز ہوں گے کہ مہا بھارت اور رامائن؟
انڈیا کے وزیر اطلاعات و نشریات جاوڑیکر نے رامائن دیکھتے ہوئے اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی جس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کی اور اس کی جگہ 'ورکنگ فرام ہوم' کی ایک پوسٹ ڈالی۔
ان کی تصویر کے ساتھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر میمز بنائیں اور بے یارو مددگار عوام کی تصاویر بھی پیش کیں جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔
صبا خان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے صرف مختلف ہیش ٹیگ کے ساتھ مسٹر جاوریکڑ کی تصاویر کے ساتھ چند پیدل چلنے والے مزدوروں کی ایک تصویر پوسٹ کی جو اپنے آپ میں بہت حد تک حالات حاضرہ پر تبصرہ ہے۔
#LockdownWithoutPlan #PrakashJavadekar #WhereIsAmitShah https://t.co/fC3A5IWmoM
— Saba (@SabakKhan33) March 28, 2020
ایس ایس سوریہ ونشی نامی ایک صارف نے وزیر کی پوسٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور فرانس کے سنہ 1789 کے انقلاب کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ 'جب بھوک سے نڈھال عوام نے رانی میری اینتونتیت کے محل کے سامنے مظاہرہ کیا تو رانی نے پوچھا کہ یہ کیوں مظاہرہ کر رہے ہیں تو کسی نے کہا کہ ان کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’روٹی نہیں تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔‘
رمیش شریوتس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پرکاش جاوڑیکر نے شاید اپنا یہ ٹویٹ ہٹا لیا۔ انہیں مودی کی جانب سے غصے میں کال آئی ہوگی۔ یار میں نے لوگوں کو مناسب سیریل (اناج) فراہم کرنے کی بات کہی تھی (ٹی وی) سیریلز کی نہیں۔‘
Prakash Javadekar seems to have deleted this tweet.
He must have received an angry call from Modi - "Yaar, I said people must be provided with adequate cereals. CEREALS. Not serials." #Ramayan pic.twitter.com/3WsHeKT2wQ— Ramesh Srivats (@rameshsrivats) March 28, 2020
دوسری جانب عوام کی بے کسی کو بیان کرتے ہوئے بہت سے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ٹویٹس کی ہیں۔
میگرے اشیاق نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’اے کاش جو مزدور سینکڑوں میل پیدل چل کر اپنے گھروں کو بغیر کھانے اور پینے کے جا رہے ہیں انہیں بھی یہ عیش مہیا ہوتے۔‘
معروف صحافی سہاسنی حیدر نے لکھا کہ لاکھوں لوگ جو سڑکوں پر پیدل اپنے گھروں کے لیے چلے جا رہے ہیں ان کا الزام صرف کورونا وائرس پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ ’یہ ایک انسان کا پیدا کردہ المیہ ہے جو کہ حکومت کے اچانک لاک ڈاؤن کے بغیر سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔‘
This, and all that follows from sending millions onto highways back to their villages, cannot be blamed just on Coronavirus. This is a man-made tragedy, flowing from an ill-conceived and unthinking plan for a sudden lockdown by the government. https://t.co/Rzcf1RsvtC
— Suhasini Haidar (@suhasinih) March 29, 2020