ناگزیر حالات کی وجہ سے حج پہلے بھی کئی بار معطل کیا جا چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کیا کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اس سال حج نہیں ہوگا؟ یہ سوال دنیا بھر میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کے ذہن اس وقت سے بھی پہلے موجود تھا جب سعودی عرب کی جانب سے مسلمانوں سے سرکاری طور پر کہا گیا کہ وہ رواں سال جولائی میں اس فرض کی ادائیگی کے منصوبے کو روک کر رکھیں۔
ڈاکٹر محمد صالح بن طاہر بنتن نے جو وزیر برائے امورِ عمرہ اور حج ہیں، 31 مارچ کو سرکاری ٹی وی 'الاخباریہ' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم نے دنیا بھر میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہا ہے کہ صورتِ حال واضح ہونے تک حج کی تیاریاں روک دیں۔'
یہ الفاظ فوراً ہی دنیا بھر میں بہت غور سے سنے گئے اور ان پر گفتگو ہوئی۔
سعودی وزیرِ عمرہ و حج کے بقول 'ہم نے دنیا سے کہا ہے کہ حجاجِ کرام کی حفاظت اور صحتِ عامہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حج گروپوں کے سلسلے میں جلدی نہ کی جائے۔'
سعودی عرب کی وزارت صحت نے مکہ اور مدینہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ پھر بھی ان دونوں مقدس شہروں میں اب تک کورونا کے 480 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ تا اطلاعِ ثانی عمرہ معطل کر دیا تھا، تمام بین الاقوامی پروازوں کو غیر معینہ مدت کے لیے روک دیا تھا اور مکہ اور مدینہ سمیت متعدد شہروں میں آنے اور جانے پابندی لگا دی تھی۔
سعودی عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک 25 اموات جبکہ دو ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں اب تک 10 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ لگ بھگ 69 ہزار کے قریب جان سے جا چکے ہیں۔
اس پس منظر میں حج کو معطل کرنے کا فیصلہ ناگزیر اور غیر معمولی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ صدیوں کے دوران ایسے حالات کے باعث جو حج کا انتظام کرنے والوں کے اختیار سے باہر تھے، حج کی ادائیگی میں خلل اور رکاوٹ پہلے بھی پڑی ہے۔
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرکائیوز (درہ) کے ذریعے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حج میں پہلی بار تعطل اس وقت ہوا جب 930 عیسوی میں خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سات اماموں کو ماننے والی اسماعیلی شیعہ اسلام کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں دن حاجیوں پر حملہ کر دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق قرمطیان نے جو اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ حج بت پرستی کا عمل ہے، 30 ہزار سے زیادہ حجاج کو ہلاک کر دیا، لاشوں سے چاہِ زمزم کی بے حرمتی کی اور حجرِ اسود لے کر اپنے دارالحکومت (موجودہ دور کے قطیف) فرار ہو گئے۔
درہ کی رپورٹ کے مطابق اس خونی حملے کی وجہ سے آئندہ 10 سال تک حج ادا نہ کیا جا سکا۔
حج کی ادائیگی میں دوسرا خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ اس رپورٹ میں ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی ہے۔
اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے کر جانے کے لیے استعمال ہونے والے اونٹ پانی کی قلت کے باعث ہلاک ہو گئے۔
درہ کی رپورٹ کے مطابق ’بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تھے وہ حج کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔‘
اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی تھے لیکن 1000 عیسوی میں وہ اس سفر کے متحمل نہیں ہو سکے کیونکہ اس سال مصر میں مہنگائی بہت زیادہ تھی۔
درہ کی رپورٹ کے مطابق 29 سال بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی حاجی حج کے لیے نہیں آیا۔ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج ادا کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔
اس واقعے کے نو سال بعد عراقی، مصری، وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔
اسی طرح 1099 میں بھی جنگوں کے نتیجے میں پوری مسلم دنیا میں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ کی جا سکی۔
سنہ 1099 میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کے فقدان کے باعث مسلمان حج ادا کرنے مکہ نہ آ سکے۔
سنہ 1168 میں مصریوں اور کرد کمانڈر اسد الدین (جو زنکیون حکومت کا دائرہِ کار مصر تک پھیلانا چاہتے تھے) کے درمیان تنازعے کی وجہ سے مصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔
13ویں صدی میں بھی حج ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوا اور درہ کی رپورٹ کے مطابق 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص خطۂ حجاز سے حج کی ادائیگی نہ کر سکا۔
سنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے زائرین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔
مصری مصنف ہانی نصیرہ کہتے ہیں کہ اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو اس سال بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'اگر یہ فیصلہ کرنا پڑا تو یہ فیصلہ دانائی پر مبنی ہوگا اور شریعتِ اسلامی کے عین مطابق بھی ہوگا جس کا بنیادی مقصد عوام الناس کی حفاظت ہے۔'
انھوں نے کہا 'قرآنِ پاک میں اللہ کا فرمان ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اور پیغمبرِ اسلام نے بھی اپنے صحابہ کو وباؤں سے خبردار کیا ہے۔'
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا ہے کہ حضرت محمد نے فرمایا تھا کہ ’اگر آپ کسی جگہ طاعون پھیلنے کی خبر سنیں تو وہاں داخل نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ وبا کسی جگہ پر پھیل جاتی ہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ حدیث طاعون سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔‘
مصری ماہر تعلیم ہانی ناصرہ کا کہنا ہے کہ کووڈ -19 پھیلنے سے پوری دنیا میں ہزاروں افراد کی جانیں چلی گئیں اور ان میں کمی کی کوئی علامت نظر نہیں آ رہی۔
'پوری دنیا کورونا وائرس کے تیز پھیلاؤ سے دوچار ہے جس نے ہر جگہ لوگوں کے دلوں میں وہ خوف بھر دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔‘
ان کے بقول 'سائنسدانوں کو اس وائرس کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہونے کی وجہ سے اس کا علاج جلد سامنے آنے کا امکان نہیں ہے، لہذا اس صورتِ حال کا جاری رہنا لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے حج کو معطل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔'
ناصرہ نے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ کچھ مسلمان ممالک میں جن میں ایران اور ترکی شامل ہیں، وبا نے بہت زیادہ تعداد میں زندگیاں ختم کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا ’ہم جلتی پر تیل نہیں چھڑکنا چاہتے۔ یہ غیر منطقی ہے اور اسلام کبھی بھی اسے قبول یا منظور نہیں کرتا۔ اگر میں مفتی ہوتا تو حج معطل کرنے کا مطالبہ کر دیتا۔'
اسلامی علوم کے محقق احمد الغامدی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حج ایک محدود فرض نہیں ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’حج کی ادائیگی کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہے۔ ایک بالغ مسلمان ہوش مندی کی عمر میں پہنچ جانے کے بعد جب بھی چاہے حج کر سکتا ہے۔‘
الغامدی نے جو حدیث اور اسلامی علوم میں ماہر ہیں، کہا ہے کہ ’مثال کے طور پر حضرت محمد نے پہلے سال حج نہیں کیا تھا جب حج فرض ہو چکا تھا بلکہ انہوں نے ایک سال بعد حج ادا کیا۔
ناصرہ کی طرح ان کا بھی کہنا ہے کہ اسلامی شریعت عوامی مفاد اور فلاح و بہبود کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
الغامدی نے کہا کہ ’شدید ضرورت کی صورت میں جیسے کورونا وائرس کا پھیلاؤ، سیاسی وجوہات یا حفاظتی مجبوریوں کی وجہ سے حج کو معطل کیا جاسکتا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ خود کو خطرے میں نہ ڈالیں۔‘
الغامدی نے مزید کہا کہ حج کی بنیاد استدلال اور منطق پر رکھی گئی ہے لہذا اگر صحت کے ذمہ دار حکام کو معلوم ہو کہ کوئی متعدی بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے تو لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ حج سے زیادہ ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اسلامی شریعت میں اس استدلال میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔'