زائرین کو خصوصی پرواز کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
سعودی عرب سے بیشتر پاکستانی عمرہ زائرین وطن واپس پہنچ چکے ہیں تاہم 300 سو زائرین اب بھی سعودی عرب میں موجود ہیں جنہیں مکہ اور جدہ کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا ہے۔
12 مارچ کو سعودی عرب میں سفری پابندیوں کے اعلان کے بعد 30 ہزار سے زائد عمرہ زائرین مملکت میں موجود تھے۔ سعودی حکومت کی جانب سے دی جانے والی 72 گھنٹوں کی مہلت کے دوران زائرین کی نصف تعداد ہی واپس جا سکی تھی۔
پاکستان کی درخواست پر سعودی حکام نے عمرہ زائرین کی واپسی کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کی اجازت دی تھی۔ ان پروازوں کے ذریعے اب تک 14 ہزار 700 زائرین واپس جا چکے جبکہ 300 زائرین کے ٹکٹ ری شیڈول نہ ہونے کی وجہ سے وہ تاحال مملکت میں ہیں۔
پاکستان میں آئندہ دو ہفتوں کے لیے تمام بین الاقوامی پروازیں معطل ہیں۔ پی آئی اے نے بھی اپنی تمام پروازیں ایک ہفتے کے لیے معطل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
جدہ میں پاکستانی قونصل جنرل خالد مجید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ 300 پاکستانی زائرین واپس نہیں جا سکے ہیں۔
ان کے مطابق ’عمرہ ٹور آپریٹرز اور سعودی وزارت حج نے انہیں ہوٹلوں میں ٹھہرانے کا انتظام کیا ہے۔ 150 افراد اس وقت مکہ اور اتنے ہی جدہ میں موجود ہیں‘۔
خالد مجید کا کہنا تھا کہ ’باقی رہ جانے والے زائرین چھوٹے گروپوں کی شکل میں مختلف بجٹ ایئرلائنز کے ذریعے سعودی عرب پہنچے تھے۔ سفری پابندیوں کے باعث بجٹ ایئر لائنز اپنے مسافر واپس نہیں لے جا سکیں۔ اب انہیں خصوصی پرواز کے ذریعے بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’سعودی عرب میں سفری پابندیوں کے ساتھ پاکستان نے بھی اپنی فضائی حدود عارضی طور پر بند کر رکھی ہیں۔ ہم اسلام آباد سے رابطے میں ہیں، کوشش ہے ان زائرین کو خصوصی فلائٹ کے ذریعے ایک دو دن میں واپس بھیجا جائے‘۔
قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ عمرہ زائرین کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ جدہ میں موجود افراد کے لیے اپنے وسائل سے کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔'
انہوں نے یقین دلایا کہ پاکستانی عمرہ زائرین کی دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
خالد مجید نے کہا کہ 'ہزاروں عمرہ زائرین کی بر وقت اور بحفاظت واپسی آسان نہیں تھی، زائرین پاکستانی تھے اور ان کی ذمہ داری ہماری تھی۔'
قونصل جنرل کا مزید کہنا تھا کہ عمرہ زائرین نے بعض ٹور آپریٹرز کے حوالے سے بھی شکایات کی ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ 'یہ کہنا کہ تمام ٹور آپریٹرز خراب ہیں درست نہیں ہوگا۔'
ان کے مطابق ’قونصلیٹ حکام ان ٹور آپریٹرز کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ اس کی رپورٹ پاکستان میں متعلقہ اداروں کو بھیجی جائے گی‘۔