Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس ایک سوچ ہے

ہم سمجھتے رہے کہ کورونا وائرس ایک بیماری ہے جو امیر غریب اور ہندو مسلمان میں فرق نہیں کرتی، لیکن کافی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دراصل ایک سوچ ہے اور اس کا علاج مشکل اس لیے ہے کہ یہ مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے۔
مثال کے طور پر انڈیا میں ان لوگوں کو ہی لے لیجیےجو مسلمانوں کو پسند نہیں کرتے۔ آپ کے ذہن میں شاید یہ سوال آئے کہ پھر بچا کون؟ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اب بھی سیکولرازم کی قسم کھاتے ہیں لیکن آج کل کے ماحول میں ان کی سنتا کون ہے؟ اس لیے ہم بھی ان کا ذکر نہیں کریں گے۔
مسلمانوں کو پسند نہ کرنے والوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر چھائے رہتے ہیں اور جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ جاتی ہے وہ میڈیا پوری کر دیتا ہے۔ چلیے مانا سب نہیں لیکن جو اس کام میں شریک نہیں ہیں ان کی بھی سنتا کون ہے؟ اس لیے ان پر وقت خراب کرنے سے کیا فائدہ۔
تو کہانی انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر سے شروع کرتے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر بس اتنا سمجھ لیجیے کہ وہاں ایک دیہی علاقے میں دو ہندو سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کو چور سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔
کچھ اسی انداز میں جیسے گائے کی سمگلنگ کے نام پر کئی مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ پلک جھپکتے ہی سوشل میڈیا پر یہ تھیوری پھیلائی جانے لگی کہ مارنے والے مسلمان تھے۔ جب ریاستی حکومت کو لگا کہ بات بگڑ سکتی ہے تو وزیر داخلہ نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ مرنے اور مارنے والوں، دونوں کا تعلق ایک ہی مذہب سے تھا، لیکن بات اتنی آسانی سے ختم کہاں ہوتی ہے؟ قاتل اور مقتول کا مذہب ایک ہی تھا تو کیا ہوا، الگ ہو تو سکتا تھا، اور اگر ہو سکتا تھا تو ٹی وی پر پرائم ٹائم ڈیبیٹ تو بنتی ہے۔
یہ صحافت کا پہلا اصول ہے۔آپ جو بھی سٹوری کور کریں اس کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جانا چاہیے ورنہ آپ پر جانب داری کا الزام لگ سکتا ہے اور اگر آپ کی معتبریت اور غیر جانبداری ہی مشکوک ہو تو کوئی کیوں آپ کا چینل دیکھے گا؟

انڈیا میں تبلیغی جماعت کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

اس لیے ایک انتہائی مقبول ٹی وی چینل نے اس سوال پر بحث کرائی کہ اگر مرنے والوں کا تعلق کسی بھی اقلیت سے ہوتا (یا سادہ الفاظ میں یہ کہیے کہ وہ مسلمان ہوتے) اور مارنے والے ہندو تو کیا تب بھی خود کو روشن خیال 'لبرل' کہنے والے سیکولر لوگ خاموش بیٹھتے!۔
بھائی، اگر ایسا ہوتا اور وہ خاموش رہتے تو بحث بنتی تھی، لیکن ایسا تھا نہیں اس لیے انہوں نے کچھ کہا نہیں۔ یہ لوگ بے چارے آج کل ویسے ہی کم بولتے ہیں، انہیں بخش دیجیے۔ اب آپ کو چینل چلانا ہے اور گراؤنڈ سے رپورٹنگ کرانے میں پیسے لگتے ہیں اس لیے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈیبیٹ کرانا کیوں آپ کی مجبوری ہے۔ لہٰذا، کچھ آئیڈیاز پیش خدمت ہیں، جب ہندو مسلم ایشوز سے وقت ملے تو ضرور توجہ فرمائیے گا۔

تیل کی قیمت کم کرنے کا اتنا آسان طریقہ پہلے کیوں نہیں آیا؟ (فوٹو: اے ایف پی)

مثال کے طور پر اگر کورونا وائرس نہ پھیلا ہوتا تو کیا تب بھی لاک ڈاؤن کرنا چاہیے تھا؟ کیا وائرس پر قابو پانے کے بعد بھی لاک ڈاؤن جاری رہنا چاہیے؟ کیا لاک ڈاؤن ہمشیہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ وائرس کبھی بھی لوٹ سکتا ہے؟ چین میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے سے پہلے ہی پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کیوں نہیں کیا گیا؟ اور چونکہ ایسا نہیں کیا گیا تو کیا لبرلز کو استعفٰی نہیں دینا چاہیے؟
 بھائی لبرلز کس چیز سے استعفٰی دیں؟ انہیں پوچھتا کون ہے؟ لیکن ہاں آپ کی یہ بات بھی درست ہے کہ وہ کسی عہدے پر فائز نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ ہو تو سکتے تھے اور اس حالت میں انہیں استعفٰی دینا چاہیے تھا کہ نہیں؟
یہ کئی دن کا سامان ہے اور جب اس سب سے فرصت مل جائے تو امریکہ میں تیل کی قیمت پر بھی توجہ دیجیے گا۔ سنا ہے کہ وہاں (ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ) ڈبلیو ٹی آئیتیل کی قیمت منفی میں چلی گئے ہے) یعنی جیسے کمپنیاں مئی کی ڈیلیوری اٹھانے کے لیے خریداروں کو پیسے دے رہی ہوں)۔

انڈیا میں بعض جگہ مسلمانوں نے میڈیکل ٹیموں پر تشدد کی حماقت کی (فوٹو: اے ایف پی)

تیل کی قیمت کم کرنے کا طریقہ اتنا آسان تھا تو یہ خیال پہلے کبھی کسی کو کیوں نہیں آیا؟ بس ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کرایا اور تیل گلی کوچوں میں پانی کی طرح بہنے لگے گا۔ بحث اس بات پر ہو سکتی ہے کہ لاک ڈاؤن سے تیل بھی سستا رہے گا اور چونکہ گاڑیاں بھی نہیں چلیں گی اور کارخانے بھی بند رہیں گے تو ہوا بھی صاف رہے گی۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اسے صرف پھیلنا آتا ہے۔ اس وقت امریکی تیل کی طرح جو لینا چاہے، ہاتھ بڑھائے اور بس اتنا ہی کافی ہے۔
اور ہاتھ بڑھانے میں مسلمانوں سے آگے کون ہے۔ جب حکومت یہ کہتی ہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کے مجموعی کیسز میں تہائی حصہ تبلیغی جماعت کا ہے تو بہت سے لوگوں کو برا لگتا ہے کیونکہ مریض صرف مریض ہوتا ہے یا ہونا چاہیے، ہندو یا مسلمان نہیں۔

انڈیا میں بعض ہسپتالوں نے مسلمانوں کا داخلہ ہی بند کر دیا (فوٹو: پی ٹی آئی)

لیکن لوگ بھی مانتے کہاں ہیں؟ انڈیا کے کئی شہروں میں مسلمان مریضوں یا ان کے رشتہ داروں نے ڈاکٹروں اور پولیس کی ٹیموں کو نشانہ بنایا ہے، کبھی قرنطینہ سے بچنے کے لیے تو کبھی باجماعت نماز پڑھنے کے لیے۔
جہاں جہاں مسلمانوں سے حماقتیں ہوئی ہیں ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے تبلیغی جماعت کے مرکز میں اتنے لوگوں کو جمع نہیں ہونا چاہیے تھا، اور جو لوگ اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے انہیں خود ٹیسٹنگ کے لیے آگے آنا چاہیے تھا۔۔۔لیکن جو ہونا چاہیے وہ ہوتا کب ہے؟
جب سے سنا ہے کہ پاکستان میں تراویح کی اجازت دے دی گئی ہے، تب سے یقین اور پختہ ہوگیا ہے کہ کورونا وائرس مختلف لوگوں کو الگ الگ انداز میں متاثر کرتا ہے۔ اس سے نہ حکومتیں محفوظ ہیں اور نہ عوام، لیکن انڈیا میں اب مذہبی رہنما لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ رمضان میں بھی نماز اپنے گھروں میں ہی پڑھیں اور مساجد کا رخ نہ کریں۔

کورونا مختلف ممالک میں لوگوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

دو تین دن پہلے میرٹھ کے ایک بازار کی ویڈیو وائرل ہوئی، یہ مسلمانوں کا محلہ تھا اور لوگ کچھ اس طرح شاپنگ کر رہے تھے جیسے کوئی میلہ لگا ہوا ہو۔ بھائی فی الحال صرف کھانے پینے کی چیزیں ہی خرید لیں، زندگی رہی تو چوڑیاں خریدنے کے لیے بہت وقت ملے گا۔
کورونا وائرس بھلے ہی ایک سوچ کا نام ہو لیکن جب یہ کسی کے ذہن میں گھر کر لیتی ہے تو پھر کینسر کی طرح زندگی بھر اس سے پوری طرح نجات ممکن نہیں ہے۔ اس کی مثال میرٹھ کے ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال نے دی ہے جہاں صرف کینسر کا علاج ہوتا ہے۔ ہسپتال نے مقامی اخباروں میں ایک اشتہار شائع کرایا ہے کہ مسلمان مریض اور ان کے تیماردار علاج کے لیے اسی صورت میں آئیں جب ان کے پاس کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی منفی رپورٹ ہو۔

اس ساری صورتحال میں انڈیا کے لبرلز خاموش دکھائی دیتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

لیب رپورٹ کی شرط سے پولیس اور سرکاری افسران، ڈاکٹروں اور اہل تشیع کو مستثنٰی رکھا گیا ہے۔ اشتہار میں تبلیغی جماعت کو نوازا گیا ہے اور بہت سی قابل اعتراض باتیں بھی شامل کی گئی ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ فیصلہ خود مسلمانوں کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔
پولیس نے مقدمہ قائم کیا تو ہسپتال کے مالک کا اب کہنا ہے کہ ان کا مقصد وہ نہیں تھا جو لوگ سمجھ رہے ہیں، لیکن ہو تو سکتا تھا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں