لاک ڈاؤن ضروری ہے لیکن جب پابندیاں ختم کی جائیں گی تو کیا ہوگا؟ (فوٹو: سوشل میڈیا)
انڈیا میں لاک ڈاؤن تین مئی تک کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کچھ لوگوں کو سخت لگ رہا ہوگا لیکن غریب ضرور خوش ہوں گے یا کم سے کم انہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر وہ جنہیں اپنے گھروں سے دور کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
بس یہ سمجھیے کہ ان کے تو مزے آ گئے۔ نہ کام کی فکر نہ بیوی بچوں کی، بس ایک ہی چیلنج کا سامنا ہے کہ وقت کیسے گزارا جائے۔ لیکن آپ جب لمبی چھٹی پر کہیں بھی جاتے ہیں تو یہ مسئلہ تو سامنے آتا ہی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں سینکڑوں کی تعداد میں مہاجر یا مائگرنٹ لیبر کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں جہاں لاکھوں لوگوں کو رکھا گیا ہے، یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے پر تول رہے ہیں، اور بے صبری اتنی کہ پہلے لاک ڈاؤن کے بعد پیدل ہی نکل پڑے تھے۔
لیکن غریب پرور حکومت نے کہا کہ کہاں پریشان ہوں گے، گرمی میں پیدل لمبا سفر کرنا کتنا مشکل ہے آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے، اس لیے جہاں ہیں آرام سے وہیں رہیے۔ آپس میں بانڈنگ کرنے کا اس سے اچھا موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔
ان کی نوکریاں جا چکی ہیں، بیوی بچوں کو بھیجنے کے لیے ان کے پاس اب کچھ باقی نہیں ہے۔
لیکن جب کورونا جیسی بیماری کو ہرانا ہو تو کچھ قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں۔ سب کیمپوں کی تو گارنٹی نہیں دے سکتے لیکن کم سے کم ایک کیمپ میں یوگا کا انتظام کیا گیا ہے وہ بھی بالکل مفت۔ اس سے بڑھیا پیکج ڈیل اور کیا ہو سکتی ہے۔
لیکن پھر بھی میں نے ایک غریب کو ٹی وی پر کہتے سنا کہ کورونا سے مریں نہ مریں، ہم بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ کورونا ایک عالمی وبا ہے اور بھوک ذہنی کیفیت، بس تھوڑی سی کوشش کریں تو اس پر قابو پاسکتے ہیں اور یوگا سے اس میں بہت مدد ملتی ہے۔
مرنے کو تو انسان سڑک پر ٹہلتے ہوئے بھی مر سکتا ہے، انڈیا میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ صرف روڈ ایکسیڈینٹس میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ موت تو آنی ہی ہے بس کوشش یہ کرنی ہے کہ کورونا سے نہ آئے۔
امیروں کو دیکھیے وہ بھی تو اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ہر صبح ان کی کالونیوں کے سامنے پھل او سبزی کے ٹرک آکر کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے وہ بھی کسی ریلیف کیمپ میں رہ رہے ہوں۔ وہ بھی خاموشی سے لائنوں میں کھڑے ہوکر سامان خریدتے ہیں۔ لیکن ان کی مشکلات کا کون ذکر کرتا ہے؟
ان کے گھروں میں جھانک کر دیکھیں گے تو ان کی درد بھری داستان سن کر غریب سے غریب انسان کا بھی دل دہل جائے گا۔ اور غریب سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ہی پریشان ہیں۔ بھائی آپنے کبھی سوچا ہے کہ جھاڑو پوچھا لگانے میں کتنی محنت لگتی ہے؟ برتن، کپڑے، ڈسٹنگ، سوشل ڈسٹینسنگ۔۔۔
ایک مشکل ہو تو گنوائی جائے۔ اور اس سب پر ستم یہ کہ یوگا کے لیے انسٹرکٹر کو پیسے دینے پڑتے ہیں یا پھر آئی پیڈ سامنے رکھ کر یو ٹیوب پر ٹیوٹورئل کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اور آجکل انٹرنیٹ کی سپیڈ تو بس سبحان اللہ، کئی بار تو کسی آسن میں بندھ جانے کے بعد یہ سجھ نہیں آتا کہ ہاتھ پیروں کو کھولا کیسے جائے۔
بس کچھ یہ ہی کیفیت حکومت کی بھی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہا ہےکہ لاک ڈاؤن سے باہر کیسے نکلا جائے؟ تمام کاروبار بند کردیے، سب کو ان کے گھروں میں قید کر دیا لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ انڈیا کی معیشت پہلے ہی بہت نازک دور سے گزر رہی تھی، اب تو بس اللہ ہی نگہبان ہے۔
چند سال پہلے تک معیشت سات فیصد کی اوسط رفتار سے ترقی کر رہی تھی، پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال میں حالات اتنے خراب ہوئے کہ بات پانچ فیصد تک پہنچ گئی اور اب عالمی بینک کے تخمینوں کے مطابق خطرہ ہے کہ شرح نمو سمٹ کر ڈیڑھ فیصد رہ جائے گی۔
لاک ڈاؤن ضروری ہے یہ تو زیادہ تر ماہرین مانتے ہیں، لیکن جب پابندیاں ختم کی جائیں گی تو کیا ہوگا؟
اگر صرف لاک ڈاؤں سے مسئلہ حل ہو جاتا تو پھر بھی غنیمت ہوتی لیکن ماہرین مانتے ہیں کہ ایسا ہوگا نہیں۔ خطرہ پوری طرح ختم نہیں ہورہا ہے، ٹل رہا ہے۔ انڈیا میں کیسز کی تعداد 14 اپریل کو صرف دس ہزار سے کچھ زیادہ تھی لیکن آئندہ چھ دنوں میں کیا یہ دگنی ہوکر بیس ہزار تک پہنچ جائے گی جیسا گذشتہ چھ دنوں میں ہوا ہے؟
آنے والے چار پانچ دنوں میں یہ اندازہ ہوگا کہ انڈیا میں یہ لڑائی کیا سمت اختیار کرتی ہے اور اس سے کتنا نقصان ہوگا۔
کورونا وائرس سے پوری دنیا کی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ٰسولہ ملین امریکیوں نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے اپلائی کیا ہے۔ انڈیا جیسے ملک میں کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
انڈیا کی معیشت کا مطالعہ کرنے والے تھنک ٹینک سی ایم آئی ای کے مطابق یہاں بے روزگاری میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ آگے حالات اور خراب ہوں گے۔
سچ یہ ہےکہ اس کشتی میں امیر اور غریب سب ساتھ سوار ہیں۔ غریبوں کی پریشانیاں ذرا جلدی شروع ہوجاتی ہیں لیکن اب مڈل کلاس کے لیے بھی مشکلات پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ بزنس اور فیکٹریاں اور چھوٹے بڑے کاروبار بند ہیں، اور کہیں نوکریاں ختم ہو رہی ہیں تو کہپں تنخواہیں کاٹی جارہی ہیں۔
فیکٹری مالکان کے سامنے بھی لمحہ فکریہ ہے، عملے کو کب تک بٹھا کر رکھیں اور جب کام پوری طرح بند ہے تو اتنی بڑی لیبر فورس کو تنخواہیں کب تک اور کہاں سے دیں؟
لیکن ظاہر ہے کہ جس کے اندر نقصان برداشت کرنے کی صلاحیت جتنی کم ہوگی، اس کا اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔ بس اسے آپ جسم کی قوت مدافعت کی طرح سمجھ لیجیے جس کا ذکر کورونا کے خلاف اس لڑائی میں بار بار کیا جارہا ہے۔
انڈیا میں تقریباً 90فیصد ملازمتیں انفارمل سیکٹر میں ہیں، سادہ زبان میں یہ سمجھ لیجیے کہ یہ کچی ملازمتیں ہیں جو فارمل اکانامی کے سیفٹی نیٹ س باہر رہ جاتی ہیں۔ کورونا وائرس سے ہونے والے معاشی نقصان کی فرنٹ لائن پر یہ ہی لوگ ہیں۔
ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہی جو بہتر روزگار کی تلاش میں اپنے گھروں سے دور جاکر نوکریاں کرتے ہیں۔ یہ ہی وہ بے چین مائگرنٹ لیبر ہے جو خوفزدہ ہوکر اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتی ہے۔ انڈیا نے گزشتہ چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو شدید غربت کے نرغے سے باہر نکالا ہے۔ فکر یہ ہے کہ اگر حالات جلدی معمول پر نہیں آئے تو ان لوگوں کے دوبارہ خطہ افلاس کے نیچے پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
اس لیے غریبوں کو دریپش چیلنج کی نوعیت ذرا مختلف ہے۔ اور دنیا میں کہیں کوئی ماہر یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ حالات عنقریب بہتر ہوسکتے ہیں۔
کورونا وائرس نے ہم سب کی زندگی شاید ہمیشہ کے لیے بدل دی ہے۔ کم سے کم ایک دو سال تو وہ سب نہیں ہو پائے گا جس کی ہمیں ہمیشہ سے عادت رہی ہے، شان و شوکت والی شادیاں، بڑے سیاسی جلسے، کبھی بھی اٹھ کر ہال میں فلم دیکھنے چلے جانا، مالز میں بے فکر شاپنگ۔۔۔ سب کے لوٹنے میں وقت لگے گا اور تب تک لاک ڈاؤن آتے جاتے رہیں گے۔
اسے مشکلات کے نئے لمبے دور کا آغاز ہی سمجھیے۔ یہ پلان بی تیار کرنے کا وقت ہے۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں