Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے تھالی پیٹی، پھر تالی اور اب ماتھا

خواتین کی جانب سے طبی عملے کی حوصلہ افزائی کے لیے تالی اور تھالی بجائی گئی (فوٹو:اے ایف پی)
اگر سیٹیلائٹ سے کوئی انڈیا کی سڑکوں کو دیکھ رہا ہو تو ذہن میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟
سوا ارب لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں، چلیے مانا سب نہیں لیکن کم سے کم وہ تو ہیں ہی جن کے پاس گھر ہیں۔
جن کے پاس نہیں ہیں ان پر بھی پابندی ہے کہ سڑکوں پر نظر نہ آئیں۔ باقی وہ جانیں اور ان کا کام۔ کام ان کے پاس کچھ ہے نہیں سب بند جو پڑا ہے۔ 
لگتا ہے کہ دنیا واقعی گول ہے۔
اب اللہ ہی بہتر جانے کہ گول ہے یا چپٹی، لیکن جیسی بھی ہے آج کل ذرا مشکل میں ہے۔ سنا ہے کہ دنیا میں ایک وائرس پھیل رہا ہے جو امیر اور غریب کا فرق ختم کر رہا ہے، جو امیروں اور غریبوں دونوں کو ختم کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں، کیونکہ امیروں کے پاس نیٹ فلکس جو ہے۔
لیکن غریبوں کو بھی کچھ کم مت سمجھیے گا۔ ان کے پاس بھی تھالیاں ہیں جو کھانا کھانے کے کام آئیں نہ آئیں کورونا وائرس کو ہرانے کے کام آسکتی ہیں۔ کم سے کم عہد رفتہ کے سپر سٹار امیتابھ بچن کو تو یہ ہی لگتا ہے۔ وہ بظاہر مانتے ہیں کہ
تھالیاں اور تالیاں بجا کر کورونا وائرس کو کمزور کیا جا سکتا تھا۔ یہ ملٹی ٹاسکنگ کی بہترین مثال ہوتی لیکن یہ وائرس بھی اتنی آسانی سے کہاں مانتے ہیں۔
اگر تھالیوں اور تالیوں سے قبضے میں آسکتے تو کیا حالات اس نہج پر پہنچتے؟ انڈیا جیسی کوالٹی کی بھلے ہی نہ ہوں، تھالیاں تو اٹلی اور سپین میں بھی ہوتی ہوں گی۔

انڈین حکومت نے 21 دن کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ تو اب صاف ہے کہ تھالیوں اور تالیوں سے کچھ نہیں ہونے والا، اور ماتھا پیٹنے سے کچھ نہیں ہوتا اس کی گارنٹی ہم دے سکتے ہیں تو اب بس کچھ  بے تکے کام کرنا باقی رہ جاتے ہیں۔ جیسے اپنے گھروں میں محددو رہنا، کسی سے ہاتھ نہ ملانا، بھیڑ والی جگہوں سے دور رہنا اور تھوڑی تھوڑی دیر میں ہاتھ دھوتے رہنا۔
لیکن جن کاموں میں ڈرامہ نہ ہو، ان میں مزا کہاں آتا ہے؟
اگر آتا تو پورے ملک میں کرفیو لگانے کی نوبت کیوں آتی؟ ملک بھر میں اب ہوائی اڈے ویران پڑے ہیں فیکٹریاں بند ہیں اور ٹرین اور بس سروس معطل کردی گئی ہیں۔
جو بروقت گھر پہنچ گئے وہ خوش ہیں کہ جو ہوگا سو ہوگا لیکن گھر میں گھروالوں کے پاس تو ہوگا باقی پریشان ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں؟
بڑی بڑی سوسائٹیوں کے پھاٹکوں پر تالے ڈال دیے گئے ہیں۔ نہ اخبار والوں کو اندر آنے کی اجازت ہے اور نہ کسی مہمان کو۔ لیکن سب سے زیادہ پریشان وہ شوہر ہیں جنہیں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی عادت نہیں ہے۔ گھریلوں ملازمائیں بھی اپنے گھروں تک محدود ہیں اور خالی بیٹھے ہوئے شوہر بیویوں کے نشانے پر ہیں۔ بس ان کی ایک ہی شکایت ہے۔ کمپنی

اندین وزیراعظم کے مطابق لاک ڈاؤن جنتا کرفیو سے کہیں زیادہ سخت ہوگا (فوٹو: اےا یف پی)

ہم نے گھر سے کام کرنے کے لیے کہا تھا لیکن گھر میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ جن بچوں کے ماں باپ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کیا ہر وقت کمپیوٹر گیمز میں لگے رہتے ہو جاؤ باہر کھیل کر آؤ اب کمپیوٹر گیمز لیکر اپنے بچوں کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔
بچے بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اب چاروں طرف خوف ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ چار پانچ دن پہلے جو زندگی روزمرہ کا معمول تھی وہ کب دوبارہ ملے گی اور ملے گی بھی یا نہیں؟
علاج فی الحال کوئی ہے نہیں ٹیکہ تیار ہونے میں کم سے کم ایک سال لگے گا۔ ہسپتالوں میں کتنا بھی انتظام کر لیا جائے اگر حالات اسی انداز میں خراب ہوئے جیسے اٹلی میں یا سپین میں ہوئے ہیں تو چند ہی دنوں میں ہسپتالوں میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ملے گی اور پیر رکھ کر کریں گے بھی کیا؟

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف اب بھی احتجاج کیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بہت سے لوگ اب شدید گرمی کی دعا کر رہے ہیں۔ عام طور پر اس وقت کافی گرمی ہو جاتی ہے۔
جب تک گرمی دوائی یا ٹیکہ آئے جہاں تک ممکن ہو اپنے گھروں میں ہی رہیے لیکن ان لوگوں کو مت بھول جائے گا جن کےاپنے گھر نہیں ہیں۔ وہ کرفیو کی وجہ سے آپ کو نظر نہیں آئیں گے لیکن ہوں گے آس پاس ہی کہیں۔

شیئر: