لاک ڈاؤن کے دوران دنیا بھر میں ہزاروں پاکستانی پھنس کر رہ گئے تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کی جانب سے پاکستان میں قرنطینہ مراکز میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے شکایات سامنے آنے لگی ہیں۔
مسافروں کی جانب سے پاکستان آمد پر سات روز کے لیے قرنطینہ میں رکھنے پر بھی تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ تاہم مسافروں کے تحفظات کے بعد اب انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والوں کو اب سات نہیں تین دن قرنطینہ کیا جائے گا۔
تھائی لینڈ سے پاکستان آمد پر اسلام آباد کے سرکاری قرنطینہ مرکز میں رہنے والے محمد ابراہیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے ایئر پورٹ سے حاجی کیمپ میں قائم قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا لیکن مناسب سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ ’ماسک، ٹشوز، سینیٹائیزر مہیا نہیں کیے گئے اور ہم پرانے ماسک ہی استعمال کرتے رہے۔‘
محمد ابراہیم کے مطابق تین دن تک قرنطینہ میں رکھا گیا لیکن نہ کوئی ڈاکٹرز موجود تھا نہ ہی کوئی طبی عملہ قرنطینہ مرکز پہنچا۔
’ہمارے ساتھ جتنی بھی مسافر حاجی کیمپ لائے گئے تھے ان کا تین دن تک کورونا ٹیسٹ نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی عملہ موجود تھا۔‘
محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ فضائی سروسز معطل ہونے کی وجہ سے پہلے پاکستان آنے کے لیے پریشان تھے لیکن قرنطینہ مرکز میں لگتا ہے کہ صحت مند انسان بھی بیمار ہو جائیں گےـ
’پہلے کہا گیا کہ پاکستان آمد سے پہلے کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا ، پھر دو دن قرنطینہ قرنطینہ میں رکھنے کی شرط عائد کی گئی اور اب سات روز تک ٹھہرایا جا رہا ہے، لگتا ہے حکومت کے پاس کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔‘
حکومت پاکستان نے بیرون ملک سے آنے والے تمام مسافروں کے لیے سات روز تک قرنطینہ میں رہنے کی شرط عائد کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں مسافروں کو سرکاری یا نجی قرنطینہ مراکز میں رہنے کا آپشن دیا گیا ہے تاہم نجی قرنطینہ مراکز میں رہنے والے مسافروں کو اپنے اخراجات خود ادا کرنا ہوں گے۔
جاپان کے شہر ٹوکیو سے پاکستان آنے والے احمد محبوب نے نجی قرنطینہ مرکز میں رہنے کا اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’قرنطینہ مرکزمیں رہنے کے ایک رات کے تین ہزار روہے وصول کیے گئے جب کہ چار دن رہنے کے بعد کورونا ٹیسٹ لیے گئے، دیگر سہولیات تو مناسب تھے لیکن ہوٹل سٹاف کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جارہی تھیں۔
’خصوصی طور پر جن افراد کی ذمہ داری کھانا فراہم کرنے کی تھی انہوں نے ماسک بھی نہیں پہن رکھا تھا اور ہر کمرے میں جا رہے تھے۔ جس سے خدشہ ہے کہ اگر ایک بھی مسافر کورونا مثبت ہوا تو باقی لوگ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
احمد محمود کے مطابق ایئر پورٹ سے قرنطینہ مرکز تک منتقل کرنے کے دوران سماجی فاصلے بھی نہیں رکھا گیا ۔’جس بس میں مسافروں کو لایا گیا اس بس میں سب کو ایک ساتھ بٹھایا گیا ، تقریبا تیس مسافروں کو ایک ہی بس میں بٹھا کر لایا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ مسافروں سے ایئر پورٹ سے قرنطینہ مراکز تک ٹرانسپورٹ کا بھی کرایہ مانگا گیا لیکن انتظامیہ کی مداخلت پر کرایہ نہیں ادا کرنا پڑا۔
ڈارئیور کی جانب سے آٹھ سو روپے فی مسافر کا مطالبہ کیا لیکن مسافروں کی جانب سے احتجاج کیا گیا پھر انتظامیہ نے معاملہ رفع دفع کروایا۔
سات کے بجائے تین دن قرنطینہ مرکز میں رکھا جائے گا
اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد گوہر زمان وزیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ مسافروں کی جانب سے زیادہ شکایات سات روز تک قرنطینہ میں رکھنے پر کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ شرط نینشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر سے منظوری کے بعد حکومت پاکستان نے عائد کر رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مسافروں کے تحفظات کے بعد اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ دو دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد کورونا ٹیسٹ لیا جائے گا اور ٹیسٹ منفی آنے کے بعد مسافروں کو سیلف آئسولیشن میں رہنے کی ہدایت دی جائے گی۔
’مسافروں کی جانب سے تحفظات سامنے آنے کے بعد اعلیٰ حکام کے سامنے معاملہ اٹھایا گیا ہے جس کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اب تین دن تک رکھا جائے گا۔ مسافروں کو دیگر سہولیات فراہم کی جاتی رہی ہیں زیادہ تر مسافروں کی شکایات سات روز تک قرنطینہ میں رکھنے پر سامنے آتی رہی ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں