Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈبلیو ایچ او کورونا سے متعلق تحقیقات میں شرکت کا خواہاں

کورونا کی ابتدا کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات سے افواہوں اور قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ اسے توقع ہے کہ چین کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ہونے والی اپنی تحقیقات میں اسے شمولیت کی دعوت دے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جاساراوک نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'ڈبلیو ایچ او اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے اور چین کی دعوت پر کورونا وائرس کے جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلنے کی تحقیقات میں حصہ لینے کا خواہاں ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کو اندازہ ہے کہ چین میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے کئی تحقیقات چل رہی ہیں۔ تاہم ان کے مطابق عالمی ادارہ صحت اس وقت چین میں چلنے والی کسی بھی تحقیق سے وابستہ نہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مہلک وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا جو کہ گذشتہ سال 31 دسمبر کو چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا تھا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وائرس ووہان میں جنگلی جانوروں کی ایک مارکیٹ سے پھیلا تھا۔
تاہم امریکی صدر کے بیان کہ ’وائرس چین کی ایک خفیہ لیبارٹری سے سامنے آیا‘ نے افواہوں اور قیاس آرائیوں میں اضافہ کیا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے وائرس کے حوالے سے بیانات کو عموماً ماہرین مسترد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کو ٹرمپ کی سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جنہوں نے گذشتہ مہینے کے آغاز میں عالمی ادارے کی فنڈنگ روک دی تھی اور الزام لگایا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور چین کی طرف داری کی۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے جنوری میں ماہرین کی ایک ٹیم کے ساتھ چین کا دورہ کیا تھا جہاں وہ وائرس کے حوالے سے معلومات کے لیے چین کے صدر سے بھی ملے تھے۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس چین کی خفیہ لیبارٹری سے پھیلا (فوٹو: اے ایف پی)

اس ہفتے کے شروع میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے واضح کیا تھا کہ ان کے دورے سے بعد فروری کے مہینے میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ اس ٹیم میں چین، جرمنی، جاپان، کوریا، نائجیریا، روس، سنگاپور اور امریکی ماہرین شامل تھے۔
تاہم چین میں کورونا وائرس کے ماخذ کے بارے میں تحقیقات میں تیزی کے باوجود عالمی ادارہ صحت ان تحقیقات کا ابھی تک حصہ نہیں ہے۔

شیئر: