سنار سے سبزی فروش تک:'خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے ایسا کیا'
سنار سے سبزی فروش تک:'خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے ایسا کیا'
ہفتہ 2 مئی 2020 18:12
حکم چند کے مطابق سبزی کی دکان لگانے کا فیصلہ آسان نہیں تھا (فوٹو: آئی سٹاک)
کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن سے آئے روز کوئی نہ کوئی نئی کہانی جنم لے رہی ہے، ایسی ہی ایک کہانی انڈیا کے اس سنار کی ہے جس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن اسے اپنی زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے سبزی بھی پیچنا پڑے گی۔
شاید انہیں اس بات کی توقع نہ ہو کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ لوگ ان کی دکان سے تولے کے حساب سے سونا خریدنے کے بجائے کلو کے حساب سے سبزیاں خریدیں گے۔
انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق راجھستان ریاست کے دارالحکومت جے پور میں 25 سالہ نوجوان حکم چند سونی کی دکان کے جس کاؤنٹر پر کبھی چمکتے دھمکتے سونے کے زیورات سجھائے جاتے تھے اب وہاں سبزیاں پڑی ہیں۔
سنار کا کہنا ہے ’مجھے سبزیاں فروخت کرتے ہوئے چار دن ہو گئے ہیں۔ میرے پاس زندہ رہنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا ہے ’میرے پاس کوئی بچت نہیں ہے، نہ ہی بڑا سرمایہ ہے، لہذا میں نے سبزی کا کام شروع کر دیا۔‘
حکم چند سونی نے مزید کہا ہے کہ ان کی دکان زیادہ بڑی تو نہیں لیکن خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کافی ہے۔
انڈین حکومت نے 25 مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا جس کے تحت غیر ضروری اشیا کی دکانوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
حکم چند کا کہنا ہے کہ ’کچھ ہفتوں تک بغیر کام کاج کے گزارا ہوتا رہا لیکن مجھے گھر چلانے کے لیے کسی اور ذریعہ معاش کی تلاش تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم کئی دنوں سے گھر پر بیٹھے تھے۔ ہمیں خوراک اور رقم کون دیتا؟ میں انگوٹھی کی طرح کے چھوٹے موٹے زیورات بنا کر بیچتا تھا اور زیورات کی مرمت بھی کرتا تھا، لیکن اب میں اور دیگر دکاندار روزانہ نقصان اُٹھا رہے ہیں۔‘
حکم چند گھر کے واحد کفیل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سنار کا کام چھوڑ کر سبزی کی دکان لگانے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔
’لیکن میں کچھ نہ کچھ کما تو رہا ہوں، یہ گھر میں فارغ بیٹھے رہنے سے تو بہتر ہے۔ مجھے دکان کا کرایہ دینا ہوتا ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ اپنے متوفی بھائی کے خاندان کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔‘
حکم چند کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ خریداری کے لیے سبزی منڈی جاتے ہیں اور رکشہ کرائے پر لے کر دکان پر آتے ہیں۔ ’میرے نزدیک کام ایک عبادت ہے، اور کچھ نہیں۔‘