لاک ڈاؤن کے دوران عوام اور فلاحی ادارے مستحقین کی بھرپور امداد کر رہے ہیں اور رمضان کے آغاز سے پہلے سے ہی زکوٰۃ اور عطیات سے نادار افراد کی داد رسی کی جا رہی ہے، تاہم اس کے برعکس تعلیم، ترقی اور دیگر شعبوں میں فلاحی کام کرنے والے خیراتی اداروں کے عطیات میں نسبتاً کمی آئی ہے۔
پاکستان میں لوگ رمضان میں زکوٰۃ، عطیات اور خیرات سب سے زیادہ دیتے ہیں، اس مناسبت سے فلاحی ادارے بھی رمضان ہی میں عطیات اکھٹا کرنے کی مہم چلاتے ہیں.
مگر اس رمضان میں کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ دوسری جانب اس وقت حکومت، اداروں اور لوگوں کی ترجیح مستحقین کو راشن اور ضرورت کی اشیاء پہنچانا ہے۔
نادار گھرانوں کے بچوں کو مفت تعلیم دینے والے ادارے پاکستان یوتھ آرگنائزیشن کے عہدیدار صبیح الحسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس رمضان ان کے ادارے کو ملنے والی عطیات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔
’ہمارے مستقل ڈونرز تو عطیات بھیج رہے مگر رمضان کی مناسبت سے ملنے والے عطیات میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔‘
صبیح کا کہنا تھا کہ عطیات میں کمی کی دو وجوہات ہیں، پہلی تو یہ کہ اس وقت سب کی توجہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کی مدد کرنا ہے، جب کہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ لاک ڈاؤن نے لوگوں کی معاشی استعداد کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ خود بے یقینی کا شکار ہیں۔
حسن گھوگھاری کراچی کے پسماندہ علاقے میں سٹریٹ چلڈرن کے لیے 'سٹریٹ ٹو سکول' کے نام سے فلاحی تعلیمی ادارہ چلاتے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ عطیات میں کمی کے باعث انہوں نے دو ماہ سے اپنے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دیں۔
’اس رمضان عطیات میں پیسے کے بجائے لوگ راشن اور دیگر اشیاء دے رہے ہیں جسے ہم اپنے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں۔‘
فلاحی اداروں کی جانب سے ماہ رمضان میں بڑے پیمانے پہ امداد اکھٹا کرنے کی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کے تعاون سے تقاریب منعقد ہوتی ہیں جس میں مخیر حضرات عطیات کا اعلان کرتے، اس کے علاؤہ شاپنگ مالز، مارکیٹس اور چوراہوں ان فلاحی اداروں کی جانب سے سٹالز بھی لگائے جاتے جہاں امداد وصول کی جاتی۔
مگر اس سال رمضان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایسی کوئی بھی مہم نہیں چلائی جا رہی۔
تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے زندگی ٹرسٹ کی ترجمان ثناء کاظمی نے اردو نیوز کو بتایا کہ رمضان میں جمع ہونے والے عطیات سارے سال کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ’اس رمضان عطیات میں کمی آئی ہے جس کا اثر سکول کے معاملات پہ ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ترجیح تو صحت کا شعبہ ہی ہے لیکن اس صورتحال کا فلاحی سیکٹر میں تعلیمی اداروں پر لمبے عرصے تک منفی اثر ہوگا۔
لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کو راشن اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لیے مخیر حضرات اور فلاحی ادارے پیش پیش ہیں، اور روزانہ کی بنیاد پہ ہزاروں گھرانوں کی داد رسی کی جا رہی ہے۔ زکوٰۃ اور عطیات دینے والوں کی ساری توجہ اس وقت لاک ڈاؤن سے براہِ راست متاثر ہونےوالے افراد پر ہے۔
بچوں کی صحت و بہبود کے لیے کام کرنے والا ادارہ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن سندھ اور بلوچستان کے 10 ہسپتالوں میں چائلڈ ایمرجنسی آپریٹ کرتا ہے جس کے لیے اس کا بنیادی انحصار عطیات پہ ہوتا ہے۔
چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کی ترجمان حنا مریم نے بتایا کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا اثر ادارے کو ملنے والی عطیات پہ بھی پڑا ہے جس کا بہت حصہ رمضان میں ہی اکھٹا ہوتا تھا۔