Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوگل ڈوڈل سعادت حسن منٹو کے نام

منٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کیا (سکرین شاٹ)
سماجی رابطوں کی ٹائم لائنز اپنے چاہنے والوں میں منٹو کے نام سے معروف مصنف، کہانی کار، افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے 108ویں یوم پیدائش پر ان کا ذکر کر کے یادیں تازہ کر رہی ہیں۔
گوگل نے تقسیم سے قبل زیادہ تر ممبئی اور بعد میں لاہور کے مکین رہنے والے منٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنا ڈوڈل بھی ان سے منسوب کیا ہے۔
گوگل کے ڈوڈل پر کلک کرنے پر سرچ پیج اوپن ہوتا ہے جہاں ان کی تصاویر سمیت ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق معلومات موجود ہیں۔ زیادہ پوچھے جانے والے چار سوال بھی ایک سیکشن میں موجود ہیں، ان میں منٹو کی موت کی وجہ، قبر کا مقام، قبر کے سرہانے نصب پتھر کی تحریر اور موت کی تاریخ سے متعلق سوالات شامل ہیں۔
42 برس کی عمر میں اہلیہ اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ کر انتقال کر جانے والے سعادت حسن منٹو سے منسوب اقوال، ان کی تحریروں کے اقتباسات اور مختلف واقعات سوشل ٹائم لائنز پر بنے ٹرینڈ کا حصہ ہیں۔
 

سعد وڑائچ نے منٹو سے منسوب ایک اقتباس شیئر کرتے ہوئے ان کے یوم پیدائش کا ذکر کیا۔
 

انڈو اسلامک کلچر کا عنوان رکھنے والے ہینڈل نے منٹو کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’پنڈت نہرو کو اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا کشمیری ہونے کا دوسرا مطلب خوبصورت ہونا ہے۔‘
 

منٹو کی زندگی پر بننے والی بالی وڈ فلم منٹو کی تیاری کے دوران کے مناظر بھی کچھ ٹائم لائنز پر دکھائی دیے جب کہ اسے ’خلاف اقدار اور پاکستان مخالف‘ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ ملنا بھی زیر بحث رہا۔
 
منٹو کی جانب سے اس وقت کے حالات اور پالیسیوں کے تناظر میں ’چچا سام کے نام‘  کے عنوان سے امریکہ کو لکھے گئے خطوں کا ذکر بھی ٹرینڈ کا حصہ رہا۔ کچھ صارفین نے اپنے فن کے ذریعے منٹو کو یاد کیا تو اسے دوسروں سے بھی شیئر کیا۔
 

فن کے ساتھ ان کی شخصیت بھی منٹو کو چاہنے والوں کی گفتگو کا حصہ رہی۔ صارفین کی جانب سے منٹو کے بچپن کی ایک تصویر بھی شیئر کی گئی جس کے ساتھ کہا گیا کہ یہاں وہ اپنے والد کے ساتھ موجود ہیں۔
 

مہر جاذب علی نے اپنی پسندیدہ شخصیت کا تذکرہ کیا تو بمبئے کے جاگیسوری کالج میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے ایک جملہ منٹو سے منسوب کیا جس میں وہ کہتے ہیں ’اگر آپ میری کہانیوں کو ناقابل برداشت پائیں تو یہ اس لیے ہے کہ ہم ایک ناقابل برداشت وقت میں زندہ ہیں۔‘
 

گیارہ مئی 1912 کو متحدہ پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہونے والے سعادت حسن منٹو محض 42 برس کی عمر پا کر 18 جنوری 1955 کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔
ان کی قبر کے سرہانے لگے کتبے پر انہی سے منسوب جملہ ’جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں تھا‘ تحریر ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: