کوروناوائرس کی اگر کبھی تاریخ لکھی گئی تو دو باتوں کا ذکر ضرور ہوگا۔ ایک یہ کہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی کہ دنیا کی حکومتوں سے بھی چالاک اس وائرس نے امیر اور غریب میں فرق نہیں کیا اور دوسری یہ کہ انڈیا میں غریبوں کی زندگی کی قیمت لگانے کا کوئی قابل بھروسہ فارمولا موجود نہیں ہے۔
اگر ہوتا تو امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ ٹرینیں نہ چلائی جاتیں۔
مزید پڑھیں
-
فساد روکنے کا خفیہ فارمولاNode ID: 462801
-
انڈیا میں لاک ڈاؤن میں توسیع، خلاف ورزی پر مزدور گرفتارNode ID: 471056
-
پلان بی تیار کرنے کا وقت آ گیاNode ID: 471891
لیکن زندگی کے مول اور ووٹ کے وزن میں کنفیوز مت ہو جائیے گا۔ دونوں بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ایک کا تعلق جمہوریت سے ہے جسے مضبوط کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
آپ کو براہ راست فائدہ ہو یا نہ ہو، اور دوسرے کا تعلق انسانیت سے ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہونا نہیں چاہیے۔
مثال کے طور پر سب کی جان کی قیمت برابر ہونی چاہیے لیکن جب سب کا قد برابر نہیں ہوتا، رنگ اور چہرہ مہرہ یکساں نہیں ہوتا ہے، تعلیم اور ذہانت الگ الگ ہوتی ہے تو پورے پیکج کی قیمت برابر کیسے ہوسکتی ہے؟
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غریبوں کے ووٹ کا وزن کسی امیر آدمی کے ووٹ سے کم ہے۔ ہاں، یہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36516/2020/730386-714287755.jpg)
انتخابات جتنا قریب ہوں، غریبوں کے ووٹ کی ویلیو اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ حکومت کو اس بات کی خبر ہے اور باخبر حکومتیں ایسی بیش قیمت معلومات کی بنیاد پر ہی پالیسیاں وضع کرتی ہیں۔ اس لیے کبھی کبھی ایسی پالیسیاں نظر آتی ہیں جن کے سر پیر کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
تو جناب کسی عظیم دانشور کے مشورے پر پہلے ملک میں تقریباً دو مہینے کے لیے تالا ڈال دیا گیا۔ اس دوران امیر پکنک مناتے رہے اور حکومت غریبوں سے سوشل ڈسٹنسنگ کرتی رہی۔
سوا ارب لوگوں کو گھروں میں بند رکھنے کے بعد حکومت پر کسی دوسرے دانشور نے یہ راز افشا کر دیا ہے کہ کورونا وائرس اب آ گیا ہے تو آسانی سے جائے گا نہیں اس لیے گھر میں بیٹھ کر اس کے لوٹ جانے کا انتظار کرنا فضول ہے۔
معیشت کو اتنا بھاری نقصان ہو چکا ہے کہ گاڑی کو پٹری پر واپس لانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ اس لیے اب مزید تاخیر کیے بغیر زندگی کو معمول پر لوٹانے کی تدابیر کیجیے۔
حکومتیں تو آپ کو معلوم ہی ہے کتنی سیدھی سادی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ بس یہ سوچتی رہتی ہیں کہ اپنی عوام کو کس طرح فیض پہنچایا جائے۔ اس لیے جیسے ہی سنا کہ گاڑی پٹری پر واپس لانے کا وقت آگیا ہے تو بس پلک جھپکتے ہی ریل گاڑیاں چلانے کا اعلان کر دیا۔
منگل سے تقریباً دو مہینے (کچھ دن ادھر یا ادھر) بعد دہلی سے پندرہ ٹرینیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ جیب میں پیسے اور کنفرمڈ ٹکٹ ہو تو ان میں جو چاہے سفر کر سکتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36516/2020/734126-1084836842.jpg)
بس کوروناوائرس کی کوئی بظاہر علامت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس وہ بیسوں لاکھ مزدور ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں مائگرینٹ کیمپوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے تھے کیونکہ حکومت نے ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رکھی تھی۔
ڈر تھا کہ کہیں وہ دور دراز دیہی علاقوں میں واقع اپنے گھروں تک کورونا وائرس نہ پہنچا دیں۔
بہت لعنت ملامت کے بعد ان کے لیے بھی مزدور سپیشل ٹرینیں چلائی گئیں لیکن ان گاڑیوں میں سفر کرنے کے لیے شرائط کی ایک لمبی فہرست بھی جاری کی گئی جیسے یہ لوگ اپنے گاؤں نہیں بیرون ملک جانے کی ضد کر رہے ہوں۔
شرائط کچھ اتنی سخت تھیں کہ بہت سے لوگوں نے بیچ میں ہی ہتھیار ڈال دیے، سوچا کہ اس سے بہتر تو پیدل ہی چلتے ہیں، کبھی نہ کبھی پہنچ ہی جائیں گے، ہم سے پہلے بھی لاکھوں لوگ یہ سفر کر چکے ہیں۔
ان میں سے 16 راستے میں تھک ہار کر ٹرین کی پٹری پر ہی سو گئے اور اب کبھی نہیں اٹھیں گے۔ ’ممبئی مرر‘ اخبار نے ان کی موت کی خبر کی سرخی کچھ یوں لگائی: ’سوری وی ہیو رن آؤٹ آف ورڈز ٹوڈے۔‘ ( معاف کیجیے گا آج ہمارے پاس الفاظ باقی نہیں)۔ بس یہ ہی ان مزدوروں کی کہانی ہے۔
کرناٹک کی حکومت نے الگ ہی کارنامہ انجام دیا۔ پہلے کہا کہ مزدوروں کو واپس لے جانے کے لیے ٹرینیں چلائی جائیں گی۔ لیکن جب کنسٹرکشن لابی نے کہا کہ یہ لوگ اپنے گھر لوٹ جائیں گے تو ہمارے پراجیکٹوں پر کام کون کرے گا تو ٹرینیں کینسل کر دی گئیں۔
جیسے یہ لوگ مزدور نہیں غلام ہوں جو خود یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ گھر جائیں کہ نہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36516/2020/unnamed_0.jpg)
ویسے یہ مزدوروں کی بھی غلط بات ہے، تھوڑا شرم لحاظ تو انہیں بھی کرنا چاہیے۔ عزت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جو وقت ضرورت دوسروں کے کام آتے ہیں۔
یہ بلڈر بھی ان کے کام ضرور آتے لیکن لاک ڈاؤن میں سب کو اپنی پڑی تھی اور پھر غریب آدمی کو تو ویسے بھی بھوکا رہنے کی عادت ہوتی ہے، ساری زندگی مشکل میں گزارتے ہیں لیکن وبا کے دوران انہیں آرام بھی چاہیے اور تنخواہ بھی۔
گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کے لیے بھی غیرمعمولی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ وہ کام پر لوٹ تو سکتی ہیں لیکن ایک سے زیادہ گھر میں کام نہیں کرسکتیں۔
لیکن یہ عورتیں بہت معمولی رقم کے لیے اکثر تین چار گھروں میں کام کرتی ہیں، اگر صرف ایک گھر میں کام کریں گی تو باقی لوگ انہیں تنخواہ کیوں دیں گے؟ اور اگر ان کی آمدنی تہائی یا چوتھائی رہ جائے گی تو ان کا گزارا کیسے ہوگا؟
جب چار سال پہلے ملک میں بڑے کرنسی نوٹ بند کیے گئے تھے تب بھی سب سے بڑی قیمت انہیں لوگوں نے ادا کی تھی جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ سمجھتے رہے کہ امیروں سے آخرکار کوئی حساب لے رہا ہے اور اب ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔
لیکن امیر اگر اتنے ہی بے وقوف ہوتے اور ان سے حساب لینا اتنا ہی آسان ہوتا تو وہ امیر کیوں ہوتے؟
![](/sites/default/files/pictures/May/36516/2020/india222posit.jpg)